1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان امریکا سکیورٹی ڈیل، انتظار کیا جا سکتا ہے: جنرل ڈیمپسی

عاطف بلوچ5 دسمبر 2013

امریکی جنرل مارٹن ڈیمپسی نے کہا ہے کہ کچھ ماہ تک اس سیاسی فیصلے کا انتظار کیا جا سکتا ہے کہ نیٹو فوجی مشن کے خاتمے کے بعد افغانستان میں امریکی فوجیوں کو تعینات رکھا جائے یا نہیں۔

https://p.dw.com/p/1ATEw
تصویر: Getty Images

خبر رساں ادارے روئٹرز نے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکا اور افغانستان کے مابین دو طرفہ سکیورٹی کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے اگرچہ انتظار کیا جا سکتا ہے لیکن اس سے نہ صرف افغان سکیورٹی فورسز کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس سے نیٹو کی منصوبہ بندی بھی متاثر ہو گی۔

Afghanistan Polizei Ausbildung
جنرل مارٹن ڈیمپسی کے بقول تاخیر سے افغان سکیورٹی فورسز کے اعتماد کو نقصان پہنچے گاتصویر: picture alliance/AP Photo

جنرل ڈیمپسی کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغان صدر حامد کرزئی آئندہ برس اپریل سے قبل اس معاہدے پر دستخط نہ کرنے کے اپنے فیصلے پر برقرار ہیں۔ اسی معاہدے کو حتمی شکل دینے کے بعد کچھ نيٹو افواج 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں تعینات رہ سکیں گی، ورنہ دوسری صورت میں آئندہ برس کے اختتام تک تمام غیر ملکی فوجی افغانستان سے واپس اپنے اپنے ممالک روانہ ہو جائیں گے۔

یہ امر اہم ہے کہ افغان صدر کے اصرار کے باوجود امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ کابل اور واشنگٹن کے مابین یہ اہم معاہدہ رواں برس کے دوران ہی طے پا جانا چاہیے۔ اس صورتحال میں جنرل ڈیمپسی نے بھی بدھ کے دن پینٹاگون میں صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے کو فوری طور پر حتمی شکل دے دینا چاہیے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے میں تاخیر سے مستقبل کی منصوبہ بندی کرنے کے لیے امریکی افواج کو کسی انتظامی مسئلے کا سامنا نہیں ہے لیکن اس مرحلے میں دیگر کئی معاملات حل طلب ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی اتحادی ممالک کو افغانستان میں اپنی افواج کی تعیناتی کے لیے پارلیمانی اجازت لینا ہو گی اور اگر دوطرفہ سکیورٹی کے معاہدے پر دستخط کرنے کے عمل میں دیر کی جاتی ہے تو انہیں مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔

Afghanistan Karsai PK in Kabul 18.06.2013
افغان صدر حامد کرزئیتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

اعلیٰ امریکی فوجی اہلکار نے مزید کہا کہ افغان سکیورٹی فورسز کو ابھی بھی طالبان کی سخت بغاوت کا سامنا ہے۔ جنرل ڈیمپسی کے بقول اس معاہدے پر کسی فیصلے کو مؤخر کرنے کے نتیجے میں افغان سکیورٹی فورسز کو بھی یہ معلوم نہیں ہو گا کہ آیا ہم ان کی مدد کے لیے ان کےساتھ رہیں گے یا نہیں اور یوں مقامی سپاہیوں کا اعتماد متزلزل ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’یہ معاہدہ جلد ازجلد طے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان کو اعتماد کی ضرورت ہے۔‘‘ افغانستان میں اس وقت بھی تقریبا 46 ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں، جو آئندہ برس کے آغاز پر کم کر کے 34 ہزار کر دیے جانے کا منصوبہ ہے۔

ادھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بھی اس ڈیل کو فوری طور پر حتمی شکل دینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ اگر افغان صدر کرزئی اس پر دستخط نہیں کرنا چاہتے ہیں تو افغان وزیر دفاع بسم اللہ خان محمدی ان کی جگہ اس معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔ تاہم افغان صدر کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ حامد کرزئی اپنے کسی وزیر کو اس معاہدے پر دستخط کرنے کی اجازت اس وقت تک نہیں دیں گے جب تک ان کی اہم شرائط تسلیم نہیں کر لی جاتیں۔