1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان کا صدارتی الیکشن: بھاری ٹرن آؤٹ اور عالمی پذیرائی

عابد حسین6 اپریل 2014

ہفتے کے روز ہونے والے صدارتی انتخابات میں افغانستان کے طول و عرض میں کوئی بڑا پرتشدد واقعہ رونما نہیں ہوا۔ ووٹنگ کا عمل پر امن رہا۔ عبوری نتیجہ چوبیس اپریل سے پہلے متوقع نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/1Bcfn
تصویر: DW/Q.Wafa

افغانستان میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد 13.5 ملین کے قریب ہے۔ دارالحکومت کابل میں قائم انتخابات کے نگران ادارے آزاد الیکشن کمیشن (IEC) کے سربراہ احمد یوسف نورستانی کا کہنا ہے کہ جس انداز میں ووٹنگ کا عمل سارا دن جاری رہا، اس کے مطابق ووٹ ڈالنے والوں کی تعداد سات ملین تک ہو سکتی ہے۔ اس طرح ڈالے گئے ووٹوں کی شرح پچاس فیصد سے تجاوز کر سکتی ہے۔ پورے ملک میں چونسٹھ ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے اور ان پر سارا دن ووٹرز کی بھیڑ رہی۔ کئی مقامات پر پولنگ کا وقت ختم ہونے پر بھی لمبی قطاریں دیکھی گئی۔ پہلے خیال کیا جا رہا تھا کہ طالبان کی دھمکیوں کے باعث شاید پولنگ اسٹیشن ویران رہیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔

Afghanistan Mazar Präsidentschaftswahl 2014
پورے ملک میں چونسٹھ ہزار پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے تھے اور ان پر سارا دن ووٹرز کی بھیڑ رہیتصویر: DW/N.Asir

صدارتی الیکشن کے ابتدائی نتیجے کا امکان 24 اپریل سے پہلے ممکن نہیں ہے۔کُل آٹھ امیدواروں میں سے اگر کوئی ایک امیدوار 50 فیصد تک ووٹ حاصل کر گیا تو وہ الیکشن جیت جائے گا اور پھر دوسرے مرحلے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ بصورت دیگر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدواروں کے درمیان صدارتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ 28 مئی کو شیڈیول کیا جا چکا ہے۔ بظاہر کسی امیدوار کی کامیابی کا نہیں کہا جا سکتا لیکن خیال کیا گیا ہے کہ زلمے رسول اور عبداللہ عبداللہ کے درمیان کانٹے دار مقابلہ رہے گا۔ سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ سن 2009 کے صدارتی الیکشن میں بھی امیدوار تھے۔

افغان صدر حامد کرزئی کی جگہ پر نئے صدر کو منتخب کرنے کے لیے بھاری تعداد میں افغان عوام ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ اسٹیشنوں تک پہنچے۔ الیکٹورل کمیشن نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ٹرن آؤٹ غیر معمولی طور پر زیادہ رہا۔

صدارتی الیکشن کے موقع پر افغان صدر حامد کرزئی کا کہنا تھا کہ انتخابات میں عوام کی بھاری شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان عوام اپنے ملک میں امن، استحکام اور ترقی کے متمنی ہیں۔ سرکاری ٹیلی وژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کرزئی نے یہ بھی کہا کہ پرامن انتخابات کا انعقاد عوام کی ہمت اور سکیورٹی اداروں کی بھرپور کوششوں کا نتیجہ ہے۔ کرزئی نے انتخابی عمل میں شریک تمام افراد کی کاوشوں کو سراہا۔

Afghanistan Ghazni Präsidentschaftswahl 2014
پولنگ مجموعی طور پر پرامن رہیتصویر: DW/Q.Wafa

بین الاقوامی رد عمل

افغانستان کے صدارتی الیکشن کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن بین الاقوامی امداد کے تسلسل، افغانستان میں جمہوریت کے مستقبل اور جمہوری روایات کے استحکام کے لیے ناگزیر تھے۔ اسی طرح امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ لاکھوں افغان خواتین و حضرات نے انتخابی عمل میں شریک ہو کر بہادری اور اپنی کمٹمنٹ کا ثبوت دیا ہے۔ کیری کے مطابق افغان عوام نے انتخابی عمل کا حصہ بن کر اپنے وطن سے محبت کا ناقابلِ یقین ثبوت دیا ہے۔

اسی طرح مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل اندرس فوگ راسموسن کا کہنا ہے کہ پولنگ کے دوران عوامی جوش و جذبہ یقینی طور پر تعریف کے قابل ہے۔ راسموسن کے مطابق انتخابات کو افغان عوام نے قیادت بخشی ہے، افغانیوں نے اس عمل کو محفوظ کیا اور یہی بہتر مستقبل کی نوید ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے بھی صدارتی الیکشن کے پرامن انعقاد پر افغان عوام کو مبارک باد دیتے ہوئے اسے ایک بہت بڑی کامیابی قرار دیا۔ ہیگ نے انتخابی عمل میں شریک امیدواروں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے ضبط و تحمل کی بھی تعریف کی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید