1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپیدیو: میانمار میں آسیان سربراہ کانفرنس

امجد علی11 مئی 2014

دَس جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان نے میانمار میں منعقدہ اپنی سربراہ کانفرنس کے موقع پر ایک مشترکہ اعلامیے میں بحیرہء جنوبی چین میں ’خود کو قابو میں رکھنے اور طاقت استعمال نہ کرنے‘ پر زور دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BxuE
آسیان سربراہ کانفرنس سے ایک روز قبل آسیان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں خطے کے اقتصادی معاملات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کی صورتِ حال پر بھی بات کی گئی
آسیان سربراہ کانفرنس سے ایک روز قبل آسیان کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں خطے کے اقتصادی معاملات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کی صورتِ حال پر بھی بات کی گئیتصویر: picture-alliance/dpa

میانمار 1997ء سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم کا رکن چلا آ رہا ہے لیکن یہ پہلا موقع ہے کہ اُسے آسیان کی سربراہ کانفرنس کی میزبانی کے لیے منتخب کیا گیا ہے۔ اپنی نوعیت کی اس چوبیس ویں کانفرنس میں بحیرہء جنوبی چین کا معاملہ بھی زیرِ بحث آیا، جس کے مختلف حصوں کی ملکیت کے معاملے پر آسیان کے رکن ملکوں اور چین کے درمیان شدید اختلافات پائے جاتے ہیں۔ آج اِس دَس رکنی تنظیم کی طرف سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ اعلامیے میں اس تنازعے کے تمام فریقوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ’کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں، جس سے کشیدگی کو مزید ہوا ملے اور یہ کہ بحیرہء جنوبی چین کے حوالے سے جلد از جلد ایک ضابطہء اخلاق اپنایا جانا چاہیے‘۔

ASEAN Gipfel 2014 Myanmar
برونائی کے سلطان حاجی حسن البلقیہ آسیان سمٹ میں شرکت کے لیے نیپیدیو کے ہوائی اڈے پر اترتے وقتتصویر: Reuters

ایک روز قبل اسی طرح کا ایک بیان آسیان کے وزرائے خارجہ کی جانب سے بھی جاری کیا گیا تھا، جس پر بیجنگ حکومت کی جانب سے ناگواری کا اظہار کیا گیا اور وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ بحیرہء جنوبی چین کے حوالے سے چینی تنازعات پر بات چیت دو طرفہ بنیادوں پر ہونی چاہیے۔ ماضی میں بھی چین بحیرہء جنوبی چین کے حوالے سے کسی ضابطہء اخلاق پر دستخط کرنے سے ہچکچاتا رہا ہے اور اُس نے ہمیشہ اس بات کو ترجیح دی ہے کہ سمندری حدود سے متعلق تنازعات کو آسیان کے ایک علاقائی سکیورٹی معاملے کی حیثیت دینے کی بجائے اسے ہر متعلقہ ملک کے ساتھ الگ الگ موضوعِ بحث بنایا جانا چاہیے۔

اس سے پہلے ویت نام نے الزام عائد کیا تھا کہ گزشتہ ہفتے چینیوں نے اپنی کشتیاں ویت نامی کشتیوں سے ٹکرا دیں اور اُن کے خلاف تیز دھار پانی استعمال کیا۔ انڈونیشی وزیر خارجہ مارٹی ناتالے گاوا نے کہا کہ ’بحیرہء جنوبی چین پر آسیان کی طرف سے ایک مشترکہ موقف کے اظہار کا مطلب چین یا کسی بھی دوسرے ملک کی جانب غیر دوستانہ طرزِ عمل روا رکھنا نہیں ہے‘۔

میانمار کے صدر تھین سین نے اپنے افتتاحی خطاب میں موسمیاتی تبدیلیوں کو موضوع بنایا اور قدرتی آفتوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور دیا
میانمار کے صدر تھین سین نے اپنے افتتاحی خطاب میں موسمیاتی تبدیلیوں کو موضوع بنایا اور قدرتی آفتوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور دیاتصویر: Nicolas Asfouri/AFP/Getty Images

پہلی مرتبہ آسیان سمٹ کی میزبانی کرنے والے میانمار نے سرکاری بیانات میں بحیرہء جنوبی چین کے تنازعے کا ذکر تک نہیں کیا کیونکہ اُس سارے عرصے میں جب میانمار دنیا بھر میں الگ تھلگ ہو گیا تھا، چین ہمیشہ میانمار کا ساتھ دیتا رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج میانمار کے صدر تھین سین نے سربراہ کانفرنس میں اپنے افتتاحی خطاب میں بحیرہء جنوبی چین کے تنازعے کی بجائے موسمیاتی تبدیلیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ قدرتی آفات کی صورت میں جلد از جلد کوئی ردعمل ظاہر کرنے کے لیے انسانی امداد کا ایک علاقائی مرکز قائم کیا جانا چاہیے۔ مزید یہ کہ ساحلی علاقوں میں مینگروو درخت لگانے کی ایک علاقائی مہم شروع کی جانی چاہیے۔ واضح رہے کہ مئی 2008ء میں، جب ابھی اس ملک پر فوج کی حکومت تھی، نرگس نامی طوفان نے میانمار کے وسطی علاقوں میں تباہی مچا دی تھی اور کم از کم ایک لاکھ اڑتیس ہزار افراد مارے گئے تھے۔

آسیان کی جانب سے سال میں دو مرتبہ سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اس میں خطّے کے اقتصادی انضمام کے ساتھ ساتھ سلامتی سے متعلقہ مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا جاتا ہے۔ آسیان کی پچیس ویں سربراہ کانفرنس بھی میانمار ہی میں اس سال کے اواخر میں منعقد ہو گی۔ آج کل آسیان میں میانمار کے ساتھ ساتھ برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام بھی شامل ہیں۔