1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليم

یہ پاکستان کی پہلی اسٹریٹ لائبریری ہے

عنبرین فاطمہ، کراچی
25 دسمبر 2019

انٹرنیٹ اور موبائل کے اس دور میں لوگ، خاص طور پر نوجوان کتاب اور مطالعے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ مگر کراچی میں نوجوانوں کو کتابوں کی طرف راغب کرنے کی ایک دلچسپ کوشش کی گئی ہے۔ یہ پاکستان کی پہلی اسٹریٹ لائبریری ہے۔

https://p.dw.com/p/3VK54
Pakistan Kultur l Erste Straßen-Bibliothek in Karachi
تصویر: DW/Unbreen Fatima

اسمارٹ موبائل اور انٹرنیٹ سے مضبوط رابطے نے نوجوانوں کا کتابوں کے مطالعے سے رشتہ کمزور کر دیا ہے اور اب بظاہر انہیں کتاب کی جانب راغب کرنا آسان نہیں۔ تاہم آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد اسٹریٹ لائبریری کی بنیاد رکھ کر لوگوں میں مطالعے کا شوق جگانے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔

شہر کراچی کی معروف میٹروپول چورنگی پر اب سے کچھ عرصہ پہلے پیدل چلنے کے راستوں پر غیر قانونی تجاوزات کی بھر مار تھی۔ لیکن اب یہاں بانی پاکستان محمد علی جناح، فاطمہ جناح، علامہ اقبال اور لیاقت علی خان کے علاوہ ملک کی تاریخی عمارات پر مشتمل آرٹ ورک سے مزین ایک دیوار دیکھی جا سکتی ہے۔ اس دیوار کے درمیان لکڑی کی الماریاں بنائی گئی ہیں جن میں مختلف موضوعات پر کتابیں رکھی گئی ہیں۔ یہ ہے پاکستان میں اپنی نوعیت کی پہلی اور منفرد اسٹریٹ لائبریری، آج کا افتتاح آج پچیس دسمبر کو کر دیا گیا ہے۔

Pakistan Kultur l Erste Straßen-Bibliothek in Karachi
تصویر: DW/Unbreen Fatima

یہ اسٹریٹ لائبریری حکومت سندھ اور کمشنر کراچی افتخار شلوانی کی مشترکہ کوشش ہے۔ اسٹریٹ لائبریری کے بارے میں کمشنر کراچی افتخار شلوانی کا کہنا ہے کہ یہ ایک چھوٹی سی علامتی لائبریری ہے، ''اس لائبریری کے قیام کا مقصد لوگوں کو مطالعے کی جانب راغب کرنے کے علاوہ انہیں ایک ایسی پبلک پلیس دینا ہے، جس کا خیال عوام خود رکھ سکیں۔ یہاں ایک وقت میں تقریباً چھ سو کتابیں رکھی جائیں گی۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ کتاب لو کتاب دو کی بنیاد پر یہ لائبریری کام کرے گی۔ یعنیِ اگر آپ اس لائبریری سے ایک کتاب لے رہے ہیں تو بدلے میں آپ کو یہاں اس شیلف میں اپنی ایک کتاب رکھنا ہو گی۔ یہاں کوئی لائبریریئن موجود نہیں ہو گا یعنیِ عوام کو یہاں آکر اپنی پسندیدہ کتاب لینے اور رکھنے کے نظام کو خود ہی ایمانداری سے دیکھنا ہو گا۔‘‘

اس وقت کمشنر کراچی کے زیر انتظام 41 لائبریریاں ہیں، جن میں سے صرف چند ہی فعال ہیں۔ اس صورتحال میں ایک علامتی لائبریری قائم کرنے کے بجائے پہلے ہی مجود کتب خانوں کا نظام پر توجہ کیوں نہیں دی جا رہی؟ اس حوالے سے کمشنر کراچی افتخار شلوانی کا کہنا ہے، ''ہم نے ایک کونسل برائے کراچی لائبریری بنائی ہے جو شہری انتظامیہ کے زیر انتظام کتب خانوں کا دورہ کر رہی ہے۔ ہم نے ان کتب خانوں کی بحالی کے لیے نجی سیکٹر سے بھی مدد حاصل کی ہے جن میں برٹش کونسل، یو ایس اور جاپانی ادارے شامل ہیں۔ ہم نے گزشتہ دس ماہ میں تقریباً دس کتب خانوں کو بہتر انداز میں فعال کیا ہے اور مزید پر کام جاری ہے۔‘‘

معروف شاعر اور کمشنر کراچی کی لائبریری کمیٹی کے رکن سحر انصاری کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے اس زمانے میں اگر لوگوں کو کتب بینی کی جانب راغب کرنے کی چھوٹے پیمانے پر بھی کوشش کی جائے تو یہ قابل ستائش ہے، ''ایک وقت تھا جب اس شہر کی کئی عوامی اور نجی لائبریریوں میں تاریخ، ادب، سائنس اور دیگر موضوعات پر ہزاروں کتب موجود ہوا کرتی تھیں۔ پرائیویٹ لائبریری رکھنا اسٹیٹس سمبل سمجھا جاتا تھا تاہم اب کئی کتب خانے غیر فعال نظر آتے ہیں۔ بس اب کراچی میں فریئر ہال، ریگل چوک اور بیت المکرم مسجد کے اطراف موجود چند لوگ ایسے ہیں جو اب بھی یہاں پرانی کتابوں کی جانب عوام کو مائل کرنے کے لیے ہر اتوار کتابوں کے اسٹال سجاتے ہیں۔‘‘