1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستیوکرین

یوکرینی صدر کی سعودی ولی عہد سے ملاقات میں کیا باتیں ہوئیں؟

28 فروری 2024

صدر وولودیمیر زیلنسکی نے سعودی عرب کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان سے منگل کے روز ریاض میں ملاقات کی۔ زیلنسکی نے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کی موجودہ صورت حال اور اپنے جنگی قیدیوں کی واپسی کے متعلق بات چیت کی۔

https://p.dw.com/p/4cxsI
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے سعودی عرب کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان سے منگل کے روز ریاض میں ملاقات کی
یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے سعودی عرب کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان سے منگل کے روز ریاض میں ملاقات کیتصویر: Bandar Aljaloud/Saudi Royal Palace/AP Photo/picture alliance

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے کے مطابق باضابطہ ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال کیا جبکہ یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ کے حوالے سے ہونے والی پیش رفت پر بھی بات چیت کی گئی۔

 ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے یوکرینی صدر کو یقین دلایا کہ سعودی عرب کی جانب سے بحران کو حل کرنے اور امن کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے عالمی سطح پر کوششیں جاری رکھیں گے۔ یوکرینی صدر نے بحران کے حل کے حوالے سے سعودی عرب کی جانب سے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے سعودی رہنما کا شکریہ ادا کیا۔

روس یوکرین جنگ: سعودی عرب امن مذاکرات کا میزبان

خیال رہے کہ محمد بن سلمان (ایم بی ایس) نے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کے خاتمے کے لیے خود کو ممکنہ ثالث کے طورپر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

صدر زیلنسکی کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماوں نے جنگ کو ختم کرنے نیز یوکرینی جنگی قیدیوں کی واپسی کے متعلق یوکرین کے منصوبے پر تبادلہ خیال کیا اور صدر نے ایم بی ایس کے ثالثی کے کردار کے لیے ان کا شکریہ ادا کیا۔

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خود کو یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک ممکنہ ثالث کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خود کو یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک ممکنہ ثالث کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہےتصویر: Bandar Aljaloud/Saudi Royal Palace/AP Photo/picture alliance

یوکرین کو سعودی عرب سے امیدیں

صدر زیلنسکی نے ریاض پہنچنے سے قبل سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ یوکرین ان کے بقول جنگ کے مکمل خاتمے کے لیے "امن فارمولے" کو آگے بڑھانے میں "سعودی عرب کی فعال حمایت پر بھروسہ کرتا ہے۔"

ایسے وقت میں جب کہ روس اور یوکرین کی جنگ تیسرے سال میں داخل ہو چکی ہے، زیلنسکی نے ایک دس نکاتی امن فارمولہ پیش کیا ہے، جس میں دیگر باتوں کے علاوہ یوکرین سے تمام روسی افواج کے انخلاء اور اس کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلانے کی باتیں شامل ہیں۔ تاہم ماسکو نے اس طرح کی تجویز کو یکسر مسترد کردیا ہے۔

اب تک اکتیس ہزار سے زائد یوکرینی فوجی ہلاک،وولودیمیر زیلنسکی

زیلنسکی نے لکھا کہ دوسرا موضوع جنگی قیدیوں کی واپسی ہے۔ انہوں نے کہا، "سعودی مملکت پہلے ہی ہمارے افراد کی رہائی کے سلسلے میں تعاون کر رہی ہے۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ یہ میٹنگ بھی نتیجہ خیز ثابت ہوگی۔" انہوں نے کہا تھا کہ میٹنگ میں اقتصادی تعاون کے سلسلے میں بھی بات چیت ہوگی۔

وولودیمیر زیلنسکی کے دورے کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ "سربراہ مملکت (زیلنسکی) نے بالخصوص یوکرین میں منصفانہ امن کی بحالی میں مدد کے لیے سعودی عرب کی کوششوں کو نوٹ کیا۔ سعودی عرب کی قیادت ایک منصفانہ حل کی تلاش میں مدد کرسکتی ہے۔"

سعودی پریس ایجنسی کی طرف سے جاری بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ ایم بی ایس نے "یوکرین روس بحران کو حل کرنے کے لیے تمام بین الاقوامی کوششوں اور اقدامات میں مملکت کی دلچسپی اور حمایت کی تصدیق کی ہے۔"

گزشتہ دسمبر میں روسی صدر پوٹن نے محمد بن سلمان سے ریاض میں ملاقات کی تھی
گزشتہ دسمبر میں روسی صدر پوٹن نے محمد بن سلمان سے ریاض میں ملاقات کی تھیتصویر: Alexei Nikolsky/Sputnik, Kremlin Pool Photo/AP/picture alliance

ایم بی ایس کا خود کو ثالث کے طورپر پیش کرنے کی کوشش

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے خود کو یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کو ختم کرنے کے لیے ایک ممکنہ ثالث کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ریاض تیل برآمد کرنے والے ملکوں کے گروپ اوپیک پلس کے ذریعہ بھی روس کے ساتھ قریبی طور پر منسلک ہے۔

روسی صدر پوٹن کا متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کا دورہ

ایس پی اے کے مطابق ایم بی ایس نے پیر کے روز روسی پارلیمان کے اسپیکر ویاچیسلاف وولودن سے بھی ملاقات کی۔ جس میں پارلیمانی تعاون اور مشترکہ تشویش کے امور پر باہمی تعاون کو فروغ دینے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کیاگیا۔

زیلنسکی کا سعودی عرب کا دورہ ایسے وقت ہوا جب کییف کی فورسز مشرقی یوکرین میں پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ فوجی تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ ماسکو کو فوجیوں کی تعداد اور ہتھیاروں کی سپلائی میں اضافہ کی وجہ سے بالادستی حاصل ہو رہی ہے دوسری طرف کییف اب بھی مغربی اتحادیوں کی جانب سے نئے ہتھیاروں کا منتظر ہے۔

یوکرین پر روسی حملے کے دو برس مکمل

 ج ا/ ص ز (اے پی،نیوز ایجنسیاں)