1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرین جنگ کے باوجود جرمنی روسی توانائی کا سب سے بڑا خریدار

1 مئی 2022

روس کی تیل و گیس کی ایکسپورٹ بین الاقوامی پابندیوں کو خاطر میں نہیں لا رہی۔ ایک رپورٹ کے مطابق جرمنی اور یورپی یونین اس وقت بھی روسی توانائی کے بڑے خریدار ہیں۔

https://p.dw.com/p/4AZWy
Symbolbild I Russisches Gasfeld
تصویر: Alexander Nemenov/AFP/Getty Images

ایک آزاد ادارے کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق روس کی یوکرین پر فوجی چڑھائی اور جنگ شروع ہونے کے ابتدائی دو ماہ کے دوران جرمنی اس وقت واحد ایک بڑا ملک ہے جو روسی توانائی کا سب سے بڑا خریدار ہے۔

کیا پابندیوں سے روسی ٹینک واپس چلے جائیں گے؟

یہ رپورٹ سینٹر برائے توانائی اور صاف ہوا (Centre for Research on Energy and Clean Air) نے مرتب کی ہے۔ اس مرکز کے مطابق یوکرینی جنگ کے ابتدائی دو ماہ میں بھی روس 63 بلین یورو یا ساڑھے 66 بلین ڈالر کما چکا ہے۔ اس خطیر رقم میں جرمنی کا حصہ9.1 بلین یورو یا 9.65 بلین ڈالر کی ادائیگی کا ہے۔

Greenpeace blockiert Tanker, der russisches Öl nach Norwegen liefert
ماحول دوست تنظیم گرین پیس نے ناروے کے لیے روانہ کیے گئے تیل کے ٹینکر کا راستہ روک رکھا ہےتصویر: NTB via REUTERS

جرمنی پر تنقید

یوکرین جنگ کے دوران جرمنی کی مسلسل روسی توانائی کی خریداری پر مختلف بین الاقوامی حلقے شدید تنقید کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تنقید کا سلسلہ خاصا پرانا بھی ہے۔ یہ حلقے جرمنی کو باور کراتے رہے ہیں کہ روس کی گیس پر جرمنی کا انحصار یورپی سلامتی کو ایک دن خطرے میں ڈال دے گا اور اب چوبیس فروری سے روس کی یوکرین پر فوجی چڑھائی کے بعد یہ خدشات درست محسوس ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔

پوٹن کی یورپی جنگ میں سرمایہ کاری

سینٹر برائے توانائی اور صاف ہوا (CREA)  نے اپنی اس خصوصی رپورٹ کا عنوان 'پوٹن کی یورپی جنگ میں سرمایہ کاری‘  تجویز کیا ہے۔ جرمنی کے بعد روس کے فوسل فیول کا دوسرا بڑا خریدار ملک چین ہے۔ یوکرینی جنگ کے دوران اس ملک نے روس کو تونائی کی خریداری میں 6.7 بلین یورو یا 6.9 بلین ڈالر ادا کیے ہیں۔

اس رپورٹ کے مصنفین کا کہنا ہے کہ ایک طرف روس کی جانب سے فوسل فیول یعنی زمین کے نیچے سے حاصل ہونے والی گیس اور تیل کی ایکسپورٹ اس ملک کے اسلحے کے ذخیرے اور دوسری جانب یوکرین پر اس کی ظالمانہ چڑھائی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Belarus | Arbeiter an der Jamal-Pipeline
بیلاروس میں یامال یورپ گیس پائپ لائن کا معائنہ ایک ورکر کر رہا ہےتصویر: Sergei Grits/AP Photo/picture alliance

رپورٹ کی دیگر تفصیلات

سینٹر برائے توانائی اور صاف ہوا (CREA) کی مرتب کردہ رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ اس وقت بھی کئی بڑی کمپنیاں روس کے ساتھ تجارتی روابط استوار کیے ہوئے ہیں۔ ان میں برٹش پٹرولیم، شیل، ٹوٹل، اور ایکسون موبل خاص طور پر شامل ہیں۔ اس رپورٹ نے واضح کیا کہ بظاہر پابندیوں نے روسی ایکسپورٹ کا دائرہ تنگ کرنا شروع کر دیا ہے لیکن تیل کی انتہائی زیادہ قیمتیں روسی خزانے کو بھرتی جا رہی ہیں۔

سوئس مارکیٹ ورلڈ: اب بھی روسی کمپنیوں کے لیے فائدہ مند

اس رپورٹ میں تجویز کیا گیا کہ اب حکومتوں کو فوسل فیول سے دوری اختیار کرتے ہوئے متبادل توانائی کے منصوبوں کو عام کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر عمل شروع کر دینا چاہیے۔ اس رپورٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ صاف توانائی انسانی صحت کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ اقتصادی ثمرات کی حامل ہو گی اور اس کے قومی سلامتی کے فوائد بھی بے شمار ہیں۔

اس مرکز نے یہ بھی تجویز کیا کہ تمام حکومتیں اور ادارے مشترکہ طور پر آپس میں تعاون سے روسی توانائی کی خریداری کو روک کر یوکرینی جنگ کے خاتمے کے امکانات کو واضح کریں تاکہ روسی فوج کے انسانیت کے خلاف جرائم کے سلسلے کو بھی بند کیا جا سکے۔

ٹموتھی جونز (ع ح/ ع آ)