1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہیوکرین

روس کا ماریوپول اسٹیل پلانٹ پر مکمل کنٹرول کا دعویٰ

21 مئی 2022

روسی وزارت دفاع نے کہا کہ جنوبی یوکرین کے ماریوپول شہر میں واقع آزوفسٹال اسٹیل پلانٹ پر ان کا مکمل قبضہ ہوگیا ہے۔ اورمہینوں تک محاصرے کے بعد باقی ماندہ جنگجوؤں نے بالآخر خودسپردگی کردی۔

https://p.dw.com/p/4BfXj
Ukraine | Asow-Stahlwerk in Mariupol
تصویر: Alexander Ermochenko/REUTERS

روسی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگوف نے صدر ولادیمیر پوٹن کو ''آپریشن کے اختتام اور آزوفسٹال صنعتی کمپلکس اور ماریوپول شہر کی مکمل آزادی‘‘ کے متعلق مطلع کردیا ہے۔

آزوفسٹال ماریوپول میں یوکرینی مزاحمت کا آخری مقام تھا۔ روسی فوجیوں نے یوکرین پر فوجی کارروائی کے ابتدائی دنوں میں ہی اس کا محاصرہ کرلیا تھا۔ روسی فورسز نے اس وسیع اسٹیل پلانٹ میں تمام انسانی امداد پہنچانے پر روک لگا دی تھی۔ انہوں نے اس پر فضا سے بمباری کی اور وہاں موجود یوکرینی فوجیوں کو اپنے ہتھیار ڈال دینے کا مطالبہ کیا۔ لیکن یوکرینی فوجی شہر پر روس کے مکمل کنٹرول کو آخری وقت تک روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ بہت سے یوکرینیوں نے ان فوجیوں کو قومی ہیرو قرار دیا ہے جو ملک کی سخت مزاحمت کی علامت بن کر سامنے آئے۔

Ukraine-Krieg Mariupol | russischer Soldat
تصویر: Vladimir Gerdo/Tass/dpa/picture alliance

پانچ سو سے زیادہ فوجیوں نے خودسپردگی کی

روسی وزارت دفاع نے بتایا کہ ماریوپول کے اسٹیل پلانٹ میں 531 یوکرینی جنگجوؤں کے آخری گروپ نے بھی اب خودسپردگی کردی ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس اسٹیل پلانٹ میں 16مئی سے خودسپردگی کرنے والے یوکرینی فوجیوں کی تعداد 2439 ہوگئی ہے۔

روسی وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا، ''کارخانے کے زیر زمین تنصیبات، جہاں جنگجو چھپے ہوئے تھے، اب روسی مسلح فورسیز کے مکمل قبضے میں ہے۔‘‘

ماریوپول اسٹیل پلانٹ میں بہت سے عام شہری بشمول خواتین، بچے اور عمر دراز افراد بھی پھنس گئے تھے۔ جنہیں اقوام متحدہ اور ریڈ کراس کی روسی حکام کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد وہاں سے محفوظ طور پر نکالنے میں کامیابی مل گئی تھی۔ تاہم وہاں موجود یوکرینی فورسز کی طرف سے خودسپردگی سے انکار کی وجہ سے روس اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہم ماریوپول شہر پر مکمل قبضہ نہیں کرسکا تھا۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ اسٹیل پلانٹ میں موجود باقی ماندہ فوجیوں کو وہاں سے نکل جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ انہوں نے سرکاری ٹیلی ویژن چینل سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’آج لڑکوں کو ملٹری کمان کی طرف سے واضح اشارہ مل گیا کہ اب وہ باہر آسکتے ہیں اور اپنی جان بچاسکتے ہیں۔‘‘

Mariupol: Verletzte Soldaten aus Stahlwerk abtransportiert
تصویر: picture alliance / ASSOCIATED PRESS

خودسپردگی کرنے والے فوجیوں کا کیا ہوگا؟

زیلنسکی نے بتایا کہ آزوفسٹال اسٹیل پلانٹ سے فوجیوں کے انخلاء کی کارروائی مغربی شرکاء کی شراکت کے ساتھ ہوئی ہے۔ ’’شہریوں کو لے جایا گیا، ڈاکٹروں کو لے جایا گیا، زخمیوں کو لے جایا گیا۔ اس کے بعد یوکرینی فوجیوں سے کہا گیا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے باہر نکل آئیں۔‘‘

زیلنسکی نے کہا کہ ماریوپول کو بچانے میں بہت سے ہیلی کاپٹر پائلٹوں کو اپنی جان گنوانی پڑی۔ ’’بڑی تعداد میں لوگوں، ہمارے پائلٹوں، کی ہلاکتیں ہوئیں۔ ہمارے ان جانباز جوانوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ آزوفسٹال تک پہنچنا تقریباً ناممکن ہے اس کے باوجود انہوں نے ادویات، کھانے اور پانی پہنچانے اور زخمیوں کی مدد کرنے میں جان کی بازی لگادی۔‘‘

Ukriane I zerstörtes Stahlwerke in Maruipol
تصویر: Olga Maltseva/AFP

قیدیوں کے ساتھ 'نازی مجرموں‘ جیسے سلوک کا مطالبہ

ماسکو نے فی الحال یہ نہیں بتایا کہ آزوفسٹال اسٹیل پلانٹ میں جن یوکرینی فوجیوں نے خودسپردگی کی ہے ان کا کیا ہوگا۔ سابقہ ہفتوں کے دوران خودسپردگی کرنے والے فوجیوں کو روس کے زیر انتظام علاقوں میں بھیجا گیا تھا۔

یوکرینی حکام کو امید ہے کہ انہیں قیدیوں کے تبادلے کے حصے کے طور پر رہا کردیا جائے گا تاہم ماسکو نے اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔

روسی صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ ان فوجیوں کے ساتھ ''بین الاقوامی قوانین کے مطابق‘‘ سلوک کیا جائے گا۔ تاہم یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ روسی تحویل میں ان کے ساتھ کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔

روسی قانون سازوں نے منگل کے روز ایک تجویز پیش کی تھی کہ آزوفسٹال اسٹیل پلانٹ کے جنگجوؤں کے ساتھ ''نازی مجرموں‘‘ جیسا سلوک کیا جانا چاہیے اور انہیں یوکرین کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا حصہ نہیں بنایا جانا چاہئے۔

ج ا/ ب ج    (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)

روس یوکرین جنگ کے باعث عالمی خوراک کی فراہمی کو خطرہ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں