1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

یوکرین: دارالحکومت کییف پر روسی حملوں کا سلسلہ جاری

29 مارچ 2022

یوکرین کا کہنا ہے کہ کیف کے مضافاتی علاقے ارپن سے باہر دھکیل دینے کے باوجود روسی افواج کے دارالحکومت پر حملے جاری ہیں۔ ادھر ترکی کے شہر استنبول میں فریقین کے درمیان آج مذاکرات کے ایک اور دور کی توقع ہے۔

https://p.dw.com/p/499Ub
Ukraine Krieg Mariupol
تصویر: AA/picture alliance

یوکرین کے مختلف شہروں پر روسی حملوں کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور 29 مارچ منگل کو بھی طلوع فجر سے پہلے ہی فضائی حملوں کے لیے سائرن بجتے سنے گئے ہیں۔ یوکرین کے حکام کا کہنا ہے کہ روسی حملوں کی وجہ سے کچھ شہروں سے نکلنے والے راستے بند ہو کر رہ گئے ہیں۔

یوکرین کا دعوی ہے کہ دارالحکومت کییف کے مضافات میں واقع شہر ارپن سے روسی فوجیوں کو باہر دھکیل دیا گيا ہے۔ روس نے اس شہر پر قبضہ کر لیا تھا، تاہم اس کا کہنا ہے کہ " لڑائی ابھی بھی جاری ہے اور خطے کے اس حصے میں تحفظ سے متعلق بات کرنا ابھی جلد بازی ہو گی۔"

 یوکرین کی مسلح افواج کے سربراہ نے الزام عائد کیا ہے کہ روسی افواج نے ملک بھر میں رہائشی علاقوں پر میزائل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایندھن کے بعض ذخائر کو بھی نشانہ بنایا گيا ہے تاکہ "لوجیسٹکس کو پیچیدہ بنانے" کے ساتھ ہی "انسانی بحران کے حالات پیدا کیے جا سکیں۔" 

یوکرینی فوج کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ روسی یونٹ دارالحکومت کییف، جنوب مشرق میں زفوریزہیا، جنوب میں کھیرسن اور مشرق میں خارکیف میں عام شہریوں کو لوٹ مار، اغوا اور یرغمال بنا کر انہیں دہشت زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم ان دعووں کی کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

Ukraine-Krieg | Trümmer der jüngsten russischen Streiks in Kiew
تصویر: Anastasia Vlasova/Getty Images

بعض کامیابیوں کے باوجود حالات کشیدہ

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کا کہنا ہے کہ 24 فروری کو ان کے ملک پر روسی حملے کے بعد سے یوکرین نے بعض فتوحات حاصل کی ہیں تاہم اس کے باوجود حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ انہوں نے رات کے وقت اپنے ٹیلی گرام چینل پر قوم سے اپنے ویڈیو خطاب میں کہا کہ روسی افواج کو کییف کے مضافاتی علاقے ارپن میں پسپا کر دیا گیا ہے۔

تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ دارالحکومت کییف کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر حصوں میں لڑائی جاری ہے اور کییف کے شمالی مضافاتی علاقوں پر روسی فوجیوں کا کنٹرول اب بھی برقرار ہے۔ شیرنیف، سومی، ڈونباس اور دیگر جنوبی علاقوں میں صورتحال "بہت مشکل" ہے۔

ان کا کہنا تھا، "روسی فوجیوں نے کییف کے شمالی علاقے کو اپنے کنٹرول میں کر رکھا ہے۔ ان کے پاس وسائل اور افرادی قوت ہے۔ وہ اپنی تباہ شدہ یونٹس کو دوبارہ تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔"

زیلنسکی کا کہنا تھا کہ یورپ روسی تیل کی سپلائی کو اپنی پابندی کی فہرست میں اسی صورت میں شامل کر سکتا ہے، جب روس اپنی جنگی کوششوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرے۔ تاہم انہوں نے کہا، "اس کے لیے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔"

Ukraine-Krieg | Kiew | Zerstörung nach einem russichen Angriff
تصویر: Rodrigo Abd/AP Photo/picture alliance

استنبول میں مذاکرات

دو ہفتوں سے بھی زائد عرصے میں پہلی بار روس اور یوکرین کے وفود جنگ بندی پر مذاکرات کے لیے ترکی کے شہر استنبول پہنچ گئے ہیں۔ یوکرین کا کہنا ہے کہ منگل کو شروع ہونے والے مذاکرات میں اس کی اولین ترجیح جنگ بندی پر بات چیت کرنا ہے۔

تاہم فی الوقت جو صورت حال ہے اس میں ان مذاکرات سے کسی خاص پیش رفت کی توقع کم ہے۔

ادھر  ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ انہوں نے یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے الگ الگ فون پر بات کی ہے اور دونوں رہنما مثبت سمت میں آگے بڑھ رہے ہیں۔

ترک صدر نے اس سلسلے میں مزید تفصیل نہیں بتائی تاہم کہا کہ وہ فریقین کے درمیان بات چیت سے قبل خود پہلے یوکرین اور روسی وفود سے ملاقات کریں گے۔

یوکرین کے وزیر خارجہ دمتریو کولیبا نے کہا کہ ان کا ملک روس کے ساتھ تازہ ترین امن مذاکرات سے سب سے زیادہ توقع جنگ بندی کی کرتا ہے۔

اس موقع پر زیلنسکی نے روس پر مزید سخت پابندیوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ یورپ روسی تیل کی سپلائی کو اپنی پابندیوں کی فہرست میں اسی صورت میں شامل کر سکتا ہے، جب روس اپنی جنگی کوششوں میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کرے۔ انہوں نے کہا تاہم، "اس کے لیے کوئی الفاظ نہیں ہیں۔"

ادھر کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ روس کو ان مذاکرات میں کسی خاص پیش رفت کی توقع نہیں ہے۔

ص ز/ ب ج  (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)

یوکرین پر روس حملے کو ایک ماہ گزر گیا

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں