1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوکرائن میں مظاہرے جاری: یورپی، امریکی سفارتکاری میں تیزی

عصمت جبیں10 دسمبر 2013

مشرقی یورپی ملک یوکرائن کی یورپ سے متعلق پالیسی میں یکدم ’یُو ٹرن‘ کے بعد یورپ نواز شہریوں کے حکومت مخالف مظاہرے ابھی تک جاری ہیں۔

https://p.dw.com/p/1AWU6
تصویر: picture-alliance/AP

کییف میں دو ہزار کے قریب ان یورپ نواز اپوزیشن مظاہرین نے آج منگل کو بھی اپنا احتجاج جاری رکھا جنہیں فسادات پر قابو پانے والی ملکی پولیس کے دستوں نے کل رات مختلف حکومتی عمارتوں سے زبردستی نکال دیا تھا۔

Weißrussische Aktivisten in Kiew 08.12.2013
چھیالیس ملین کی آبادی والے یوکرائن کے پاس اس وقت غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہیںتصویر: privat

یہ مظاہرین ان سرکاری عمارات پر قبضہ کیے ہوئے تھے لیکن وہاں سے نکالے جانے کے بعد انہوں نے گزشتہ رات برفانی موسم میں اپنے مرکزی احتجاجی کیمپ میں گزاری۔ اس دوران پولیس نے آج ہی صدارتی رہائش گاہ، پارلیمان اور حکومتی دفاتر والی عمارات کو جانے والے راستوں پر مظاہرین کی طرف سے کھڑی کردہ رکاوٹیں بھی ہٹا دیں۔ لیکن ان کارروائیوں کے بعد بھی اپوزیشن کے حکومت مخالف مظاہرین آج ایک بار پھر شہر کے وسطی حصے میں واقع آزادی اسکوائر میں جمع ہو گئے، جہاں اب تک ان کے احتجاجی کیمپوں کا ایک پورا گاؤں قائم ہو چکا ہے۔

یہ مظاہرین ملکی صدر وکٹر یانُوکووِچ کی انتہائی حد تک روس نواز پالیسیوں کو پسند نہیں کرتے جبکہ ماہرین کو تشویش اس بات پر ہے کہ یوکرائن کے اس بحران کا ملکی معیشت پر انتہائی برا اثر پڑ رہا ہے۔ سابق سوویت یونین کی اس ریاست کی معیشت پہلے ہی دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچی ہوئی ہے۔

Weißrussische Aktivisten in Kiew 08.12.2013
کییف میں دو ہزار کے قریب اپوزیشن مظاہرین نے آج منگل کو بھی اپنا احتجاج جاری رکھاتصویر: privat

صدر وکٹر یانُوکووِچ تین سابقہ ملکی صدور کے ساتھ اس بارے میں مشورے کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر ملک میں نئی سیاسی مکالمت کی بنیاد فراہم کی جا سکے۔ دوسری طرف یورپی یونین اور امریکا نے بھی یواکرئن کے بحران کے حل میں مدد کے لیے اپنی سفارتی کوششیں تیز تر کر دی ہیں۔

صدر یانُوکووِچ نے نومبر کے آخر میں ولنیئس میں ہونے والی یورپی یونین کی سربراہی کانفرنس میں برسلز کے ساتھ اشتراک عمل کا معاہدہ طے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ روس ایسا کوئی معاہدہ نہ کرنے کے لیے یوکرائن پر دباؤ ڈال رہا ہے۔

اس طرح یورپی یونین کے روس کے ساتھ تعلقات میں تو سخت بیانی دیکھنے میں آئی ہی تھی لیکن وکٹر یانُوکووِچ کو ملک میں ایسے وسیع تر عوامی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا، جن کے باعث ملک اس وقت شدید بحران سے دوچار ہے۔

یوکرائن کی مشرق یا مغرب کے ساتھ قربت کے سلسلے میں کس تیز رفتاری سے سفارتکاری کی جا رہی ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ امریکی نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نُولینڈ نے کییف پہنچنے میں دیر نہ کی، یورپی یونین کے امور خارجہ کی نگران کیتھرین ایشٹن کو آج منگل کو کییف پہنچنے کے بعد دو دن تک تنازعے کے فریقین سے بات چیت کرنا ہے اور امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے بھی ٹیلی فون پر صدر یانُوکووِچ کے ساتھ بات چیت کی ہے۔

Ukraine Proteste der Opposition für Annäherung an die EU 10.12.2013
پولیس کے دستوں نے کل رات مختلف حکومتی عمارتوں سے مظاہرین کو نکال دیا تھاتصویر: picture-alliance/dpa

وکٹوریہ نُولینڈ یوکرائن کی تین بڑی اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کر چکی ہیں۔ ان کی ملکی صدر سے کوئی ملاقات ہوئی یا نہیں، اس بارے میں کوئی اطلاعات نہیں ہیں۔ وہ یوکرائن کے بحران کے بارے میں ماسکو میں روسی قیادت کے ساتھ بات چیت کے بعد کییف پہنچی تھیں۔

جو بائیڈن نے کل پیر کو صدر یانُوکووِچ کے ساتھ فون پر گفتگو میں کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ یوکرائن مں موجودہ کشیدگی کم کی جائے اور یہ ملک اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ مکالمت کے بعد اپنے راستے اتفاق رائے سے چنے۔

اسی طرح کیتھرین ایشٹن، جن کے دورہ یوکرائن کا اعلان کل پیر کے روز کیا گیا تھا، آج منگل اور کل بدھ کے روز کییف میں زیادہ سے زیادہ سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کریں گی تاکہ اس بحران کے حل میں کییف کی مدد کی جا سکے۔ چھیالیس ملین کی آبادی والے یوکرائن کے پاس اس وقت غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم ہیں۔ ان ذخائر سے ملکی درآمدات کے لیے دو ماہ کے ادائیگیاں بھی نہیں کی جا سکتیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید