1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یوپی میں آبادی پر کنٹرول کے لیے نیا بل کیا ہے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
12 جولائی 2021

ماہرین کے مطابق بظاہر یہ بات کہی جا رہی ہے کہ یہ قانون سب کے لیے ہو گا تاہم، ’اس کا مرکزی ہدف مسلمان ہیں‘ اور اگر اسے نافذ کیا گيا تو سب سے زیادہ غریب طبقے کے لوگ متاثر ہوں گے۔

https://p.dw.com/p/3wMXj
Indien Bevölkerungswachstum
تصویر: Getty Images/B. Boro

بھارتی ریاست اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے آبادی پر کنٹرول کے لیے نئے بل کا جو مسودہ تیار کیا ہے اس کے مطابق اگر کسی کے دو سے زیادہ بچے ہوئے تو اسے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہو گی اور ایسے افراد کو سرکاری ملازمت بھی  نہیں مل سکے گی۔

دو سے زیادہ بچے ہونے پر حکومتی ملازمین کی ترقی روک دی جائے گی اور ایسے افراد کو حکومت کی جانب سے ملنے والی امداد بھی ختم کر دی جائے گی۔ ریاستی حکومت نے اس بل میں یہ بھی تجویز پیش کی ہے کہ آبادی پر کنٹرول کے حوالے سے شعور اجاگر  کرنے کے لیے تمام سیکنڈری درجے کے اسکولوں میں ایک مضمون شامل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔

یوگی حکومت کی تیاری اور منطق

حکومت نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’ریاستی قانون کمیشن، ریاست یو پی کی آبادی پر کنٹرول، استحکام نیز اس کی فلاح و بہبود پر کام کر رہا ہے اور اسی مقصد سے اس نے بل کا مسودہ تیار کیا ہے۔‘‘

اس بارے میں حکومت نے عوام سے بھی بل کو مزید بہتر بنانے میں مدد کی اپیل کی ہے اور اپنی تجاویز پیش کرنے کو کہا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ حکومت تمام بنیادی صحت کے مراکز میں زچگی مراکز قائم کرے گی۔ یہ مراکز اور غیر سرکاری تنظیمیں مانع حمل کی گولیاں اور کنڈوم وغیرہ تقسیم کریں گے، ’’اس کے ساتھ کمیونٹی ہیلتھ ورکرز کے ذریعہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے بارے میں بیداری مہم بھی شروع کی جائے گی اور ریاست بھر میں حمل، پیدائش اور اموات کی لازمی اندراج کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔‘‘

مختلف برادریوں میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش

ایک ایسے وقت جب اس بل پر بحث جاری ہے، یو پی کی حکومت نے گزشتہ روز اعلان کیا کہ وہ اس کے تحت ریاست میں مختلف برادریوں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی بھی کوشش کرے گی اور جس برادری میں شرح پیدائش زیادہ ہے وہاں بیداری مہم شدت سے چلائی جائے گی۔

اس  بیان کے مطابق، ’’یہ کوشش بھی کی جائے گی کہ جس برادری، گروپ یا خطے میں پیدائش کی شرح زیادہ ہے اس میں خاص طور پر بیداری مہم شروع کی جائے تاکہ مختلف برادریوں کی آبادی میں توازن برقرار رہے۔‘‘

بعض مبصرین کے مطابق اس توازن کا اشارہ مسلم برادری کی جانب ہے، جس کے بارے میں اکثر بی جے پی رہنما الزام تراشی کرتے رہتے  کہ ان میں پیدائش کی شرح زیادہ ہے اور اس پر سختی سے کنٹرول کی ضرورت ہے۔  

  

Indien Premierminister Narendra Modi mit dem Chefminister von Uttar Pradesh Yogi Adityanath
تصویر: Altaf Qadri/AP Photo/picture alliance

’مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش‘

مسلم تنظیموں اور سرکردہ شخصیات کا کہنا ہے کہ یو پی کی حکومت نے آئندہ انتخابات کے پیش نظر یہ شوشہ چھوڑا ہے تاکہ آنے والے اسبملی الیکشن میں فائدہ اٹھایا جا سکے۔ ان کے مطابق اس مجوزہ قانون کا مرکزی ہدف مسلمان ہیں اور کوشش یہ ہے کہ انتخابات سے قبل ریاست کو مذہبی خطوط پر تقسیم کیا جا سکے۔

آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ  کے سابق ترجمان قاسم رسول الیاس نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا، ’’انتخابات کے پیش نظر ہندو مسلم بیانیہ بنانے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے یہ تاثر قائم کرنے کی بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کی آبادی بہت زیادہ ہے اور بڑھ رہی ہے اور اسی وجہ سے یہ قانون لایا جا رہا ہے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہی لکھنؤ سے دو مسلم نوجوانوں کی شدت پسند تنظیم القاعدہ سے وابستگی کے الزام میں گرفتاری بھی اسی کوشش کا حصہ ہے اور یو پی میں، ’’یہ سب آئندہ انتخابات تک چلتا رہے گا۔ بظاہر تو یہ قانون سب کے لیے لگتا ہے تاہم آبادی کنٹرول بل کا مرکزی ہدف مسلمان ہیں۔ یہ صرف عوام میں ایک فالتو کی بحث چھیڑنے کے لیے ہے۔‘‘

واضح رہے کہ گزشتہ روز یو پی کی پولیس نے دو تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا تھا اور ایک پریس کانفنرس میں دعوی کیا  کہ یہ القاعدہ کے رکن تھے جو لکھنؤ جیسے شہر میں خود کش حملے کرنے کا منصوبہ بنا رہے تھے۔    

 قاسم رسول الیاس کے مطابق مسلمانوں کو اس بل پر بہت زیادہ تشویش نہیں ہونا چاہیے کیونکہ مسلمانوں کو تو بہت سی سہولیات پہلے سے ہی دستیاب نہیں ہے اس لیے ان پر اس کا کم اثر پڑے گا اور دیگر وہ برادریاں زیادہ متاثر ہوں گی جو پسماندہ ہیں یا جن کا قبائل سے تعلق اور ان کے لیے حکومتی سطح پر روزگار جیسے موقع پہلے سے محفوظ ہیں۔ 

   

Indien Neu Delhi Volkszählung
تصویر: DW/J. Akhtar

اپوزیشن کی مخالفت

کانگریس پارٹی اور سماجوادی پارٹی نے  حکومت کی اس تجویز پر یہ کہہ کر شدید نکتہ چینی کی ہے کہ اسمبلی انتخابات سے قبل حکومت نے ایک متنازعہ شوشہ چھوڑا  ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائی جا سکے۔ کانگریس پارٹی نے اس پر ریاستی اسمبلی میں بحث کا مطالبہ کیا ہے۔

ان جماعتوں کا موقف ہے کہ سب سے زیادہ آبادی کا مسئلہ کم تعلیم یافتہ اور غریب سماج میں ہے جو حکومت کی امداد و رعایات سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر انہیں اس کے سبب روزگار اور امداد سے محروم کر دیا گيا تو اس سے سماج کا سب سے زیادہ پسماندہ طبقہ متاثر ہو گا اور اس سے  سیاست میں ان کی نمائندگی مزید کم ہو جائے گی جو پہلے سے ہی حاشیے پر ہے۔

وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس جیسی سخت گیر ہندو تنظیمیں بھارت میں ہندوؤں کے درمیان آبادی بڑھانے کی مہم چلاتی ہیں اور وشو ہندو پریشد نے بھی اس پالیسی پر یہ کہہ کر اعتراض کیا ہے کہ آبادی کم کرنے کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

یو پی حکومت کے اس مجوزہ ڈرافٹ کے سامنے آنے کے فوری بعد اس کے خلاف بعض علاقوں میں مظاہرے بھی ہوئے تھے۔ بعض سماجی کارکنان کا  کہنا ہے کہ یہ قانون خواتین مخالف ہے کیونکہ ان کے مطابق چونکہ بھارت میں بچوں کی پیدائش کے معاملات میں بیشتر خواتین پر دوسروں کی مرضی مسلط ہوتی ہے۔

 اس لیے اگر انہیں اس کی وجہ سے حکومتی امداد سے محروم رکھا گيا تو پھر سب سے زیادہ وہی متاثر ہوں گی کیونکہ غریب سماج میں ایسی خواتین ہی حکومتی امداد کی سب سے زیادہ مستحق ہیں اور وہی سب سے زیادہ فائدہ اٹھاتی ہیں۔

بھارتیہ جنتا پارٹی نے ارون دتی رائے کے الزامات مسترد کر دیے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں