1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تعليمپاکستان

ڈریس کوڈ: نظم و ضبط کی علامت یا مذہبی و ثقافتی رجعت پسندی؟

1 ستمبر 2024

جینز اور ٹی شرٹ پر پابندی اور لڑکیوں کے لیے دوپٹہ یا اسکارف لازمی قرار دینا، کیا یونیورسٹیوں کے متنوع، آزاد اور تخلیقی ماحول سے مطابقت رکھتا ہے؟ ڈی ڈبلیو اردو نے مختلف پہلوؤں سے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کی۔

https://p.dw.com/p/4jzvG
Pakistan Islamabad Kleiderordnung an Universitäten
تصویر: Faruq Azam/DW

پاکستان میں یونیورسٹیاں طلبہ کے لیے مخصوص ڈریس کوڈ نافذ کرتی رہتی ہیں، جس کی حالیہ مثال جی سی یونیورسٹی کا نوٹیفیکیشن ہے۔ مذکورہ یونیورسٹی کی طرف سے تمام طالب علموں کے لیے جینز اور ٹی شرٹ پہننے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جب کہ طالبات کے لیے 'موڈسٹ‘ لباس کے ساتھ دوپٹہ لازمی قرار دے دیا گيا ہے۔  دوسری جانب نمل یونیورسٹی نے چھبيس اگست کو فیکلٹی ممبران کے لیے ایک نوٹیفیکیشن جاری کیا، جس میں مرد اساتذہ کے جینز اور ٹی شرٹ پہننے پر پابندی جب کہ خواتین کے لیے دوپٹہ لازمی قرار دیتے ہوئے جینز اور ٹائٹس پہننے کو ممنوعہ قرار دے ديا گيا ہے۔

ڈریس کوڈ کے حوالے سے یونیورسٹیوں کی پالیسیاں کیا ہیں؟

مختلف پاکستانی یونیورسٹیوں کی ویب سائٹس اور طلبہ و اساتذہ سے بات کرنے کے بعد ڈی ڈبلیو اردو کو جو معلومات حاصل ہوئیں، ان کے مطابق ڈریس کوڈ کے حوالے سے مختلف یونیورسٹیوں میں بظاہر تین طرز کی پالیسیاں رائج ہیں۔ پہلی، ایسی یونیورسٹیاں جہاں کوئی مخصوص ڈریس کوڈ نافذ نہیں۔ یہ تعداد میں بہت کم ہیں، جس کی ایک مثال اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی ہے۔

’ويلنٹائنز ڈے‘ نہیں بلکہ ’بہنوں کا دن‘

’مشکل سوالوں پر بحث جامعات میں نہیں تو پھر کہاں ہو گی‘

قائد اعظم يونيورسٹی کا شعبہ فزکس ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب

کیا اچھا لباس ہی انسان کے کردار کی سند ہے؟

دوسری، ایسی یونیورسٹیاں جہاں ڈریس کوڈ ہے لیکن زیادہ سخت نہیں۔ مثال کے طور پر کراچی کی ماجو یونیورسٹی جہاں لڑکوں کو جینز اور ٹی شرٹ پہننے کی اجازت ہے، لڑکیاں جینز پہن سکتی ہیں لیکن ٹی شرٹ کے ساتھ نہیں بلکہ کرتی یا فل شرٹ کے ساتھ۔ دوپٹے کی پابندی بھی لازمی نہیں۔

تیسری، ایسی یونیورسٹیاں جن میں ڈریس کوڈ کے حوالے سے مخصوص  تفصیلات تک طے ہیں، یہ تعداد میں سب سے زیادہ ہیں۔ جی سی یونیورسٹی کا نیا ڈریس کوڈ اس کی مثال ہے۔ اسی طرح مانسہرہ کی ہزارہ یونیورسٹی، جہاں تمام طالبات کے لیے عبایا، اسکارف اور شلوار قیمض پہننا لازمی قرار دے دیا گیا اور نہ صرف جینز بلکہ میک اپ کرنے اور بڑے بیگ لانے پر بھی پابندی ہے۔

یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کی طرف سے جوگرز پہننے پر پابندی لگائی گئی جب کہ طلبا و طالبات کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جمعہ کے روز لازماً شلوار قمیض پہنیں۔

Pakistan Islamabad Kleiderordnung an Universitäten
تصویر: Faruq Azam/DW

کیا یونیورسٹیوں میں مخصوص ڈریس کوڈ ہونا چاہیے؟

کیا تعلیمی نظام میں یونیورسٹی کی سطح پر ڈریس کوڈ کا چلن ہر جگہ عام ہے؟

درس و تدریس سے وابستہ ڈاکٹر شیراز دستی ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”مغرب کی یونیورسٹیوں میں ایسا نہیں کہ انتظامیہ نے اساتذہ اور طلبہ کے لیے ڈریس کوڈ لازم کر رکھا ہو اور اس کی پیروی پر اصرار کیا جاتا ہو۔ یونیورسٹی آف کولوراڈو، یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا، ولمنگٹن، مکگل یونیورسٹی سمیت جتنے تعلیمی اداروں کا مجھے تجربہ ہوا وہاں جینز، جوگر اور ٹی شرٹ وغیرہ سب کے لیے معمول کا پہناوا ہے۔"

وہ مزيد کہتے ہیں، ”ڈریس کوڈ کی کچھ صورتیں مغرب میں صرف وہاں دیکھنے کو ملتی ہیں، جہاں سسٹم کی یعنی سرمایہ دارانہ یا انتظامی اسٹیبلشمنٹ کی گرفت مضبوط ہے۔ ڈریس کوڈ کنٹرول کی ایک عملی شکل ہے۔ میرے خیال میں تنوع کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔"

کیا پاکستان کی جامعات میں مخصوص لباس کی پابندی کا کلچر ہمیشہ سے ایسا تھا؟

اس معاملے پر روشنی ڈالتے ہوئے ممتاز دانشور اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر طاہر نعیم ملک نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتايا، ”ہمارے زمانہ طالب علمی میں یونیورسٹیاں ڈریسنگ کوڈ جیسے مصنوعی اقدامات میں توانائی ضائع نہیں کرتی تھیں۔ تعلیم کے شعبے میں طلبہ اور اساتذہ اصل اسٹیک ہولڈرز ہیں۔ اس وقت فیصلہ سازی میں انہیں نظر انداز کرتے ہوئے مخصوص بیوروکریٹک انداز میں حکم نامے جاری نہیں کیے جاتے تھے۔ یہ روش اب عام ہوئی۔ ڈریسنگ کوڈ جیسے حکم نامے طلبہ ہوا میں اڑا دیتے ہیں۔ ایسے اقدامات کا کوئی عملی فائدہ نہیں خواہ مخواہ دنیا میں ملک کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔"

کیا 'موڈسٹ‘ لباس کے نام پر طالبات کی آزادی چھینی جا رہی ہے؟

پاکستان کی جن یونیورسٹیوں میں ڈریسنگ کوڈ نافذ ہے وہاں چند مثالوں کے علاوہ طالبات کے لیے دوپٹہ یا اسکارف لازم ٹھہرایا گیا ہے۔ مثلاً انسٹی ٹیوٹ آف بزنس اینڈ منیجمنٹ کی ڈریس کوڈ پالیسی کے مطابق طالبات کے لیے دوپٹہ یا اسکارف پہننا لازمی ہے جب کہ جینز، ٹائٹس اور کیپری پینٹس کی ممانعت ہے۔

ایسے اقدامات پر تبصرہ کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کے ليے سرگرم کارکن اور قائد اعظم یونیورسٹی میں جینڈر اسٹڈیز ڈیپارٹمنٹ کی سابق سربراہ ڈاکٹر فرزانہ باری ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں، ''یہ شائستہ اور باحیا لباس کے نام پر بچیوں کے بنیادی انسانی حقوق سلب کرنا ہے۔ طالبات کو پابند کیا جا رہا ہے کہ میک اپ نہ کریں، دوپٹہ کریں۔ اسکارف یہاں کے لباس کا حصہ ہی نہیں، یہ مشرق وسطیٰ سے آیا ہے۔ اس کی سرپرستی اور حوصلہ افزائی کا مطلب ہے نہ ہم اپنے معاشرے کو سمجھتے ہیں نہ جدید دور کے تقاضوں کو۔"

وہ مزيد کہتی ہیں، ”پہلے طالبات کے لیے جینز ممنوع اور دوپٹہ لازمی قرار دیا گیا، اب خواتین اساتذہ کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔ یہ ایک مخصوص رجعت پسندانہ ذہنیت کی عکاس ہے جو لڑکیوں کو بااعتماد اور فیصلہ ساز بننے کے بجائے تابعداری سکھانا چاہتا ہے۔"

ڈسپلن کی عادت یا مذہبی و ثقافتی رجعت پسندی کا فروغ؟

بعض ماہرین تعلیم ڈریس کوڈ کو ڈسپلن کی عادت، عملی زندگی کی آسانیوں اور تعلیمی اداروں پر والدین کے اعتماد سے جوڑتے ہیں۔  اس نقطہ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے بحریہ یونیورسٹی کی ترجمان مہوش کامران کہتی ہیں، ملبوسات سے متعلق مخصوص پالیسوں کے پیچے یہ نقطہ نظر ہے کہ ’طالب علموں میں نظم و ضبط پیدا کیا جائے، ادارے کے احترام کو برقرار رکھا جائے اور پاکستان کی سماجی اور ثقافتی اقدار پر عمل کیا جائے۔‘

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے طاہر ملک کہتے ہیں، ”ہمارے ہاں یونیورسٹی کی سطح پر اسکول کے لیول کی انگریزی گرامر پڑھائی جاتی ہے اور جواز تراشا جاتا ہے کہ بچوں کو انگریزی آنی چاہیے۔ نظم و ضبط کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اگر آپ طالب علم کو اسکول اور کالج کے بارہ سال یہ چیزیں نہیں سکھا سکے تو وہ اب بھی نہیں سکھیں گے۔ کیا نظم و ضبط سکھانے کے لیے کل کو یونیورسٹیوں میں اسمبلی بھی شروع کر دی جائے گی؟"

ان کا کہنا تھا، ”یونیورسٹیاں آزادی فکر، تحقیق اور علم کے فروغ کے لیے وقف ہوتی ہیں۔ جامعات بھٹے نہیں جہاں مخصوص سانچے میں ایک ہی طرح کی اینٹیں تیار کی جائیں۔ اگر یونیورسٹیوں میں اس قدر اتھارٹی کا مظاہرہ کیا جائے تو آگے بڑھنے اور  ترقی پسند معاشرے کی موہوم سی امید بھی کھونے لگتی ہے۔"

دوسری جانب ڈاکٹر فرزانہ باری کے مطابق، ”یونیورسٹیاں تنوع اور آزادانہ سوچ کا نام ہے۔ ان پابندیوں کا مطلب ہے کہ ہمارا فوکس تعلیم و تحقیق نہیں بلکہ بے جان اور تابعدار قسم کے شہری تیار کرنا ہے۔ یہ  مذہبی و ثقافتی رجعت پسندی ہے، یہ نوجوانوں کو مخصوص نظریے کے مطابق تراشنے کی کوشش ہے جسے کوئی علم دوست پسند نہیں کر سکتا۔"