1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونیسیف کی 60 ویں سالگرہ

15 مئی 2006

Unicef کا قیام ساٹھ برس پہلے گیارہ دسمبر سن 1946ء کو عمل میں آیا تھا اور اِس کا مقصد جنگ کے نتیجے میں تباہ شُدہ براعظم یورپ میں بچوں کی مدد کرنا تھا۔ آج کل یہ تنظیم دُنیا بھر میں جانی پہچانی ہے اور اِس کے سات ہزار سے زیادہ کارکن دُنیا کے 160 ممالک میں غریب ترین بچوں کی سماجی اور طبی امداد کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYLJ
بھارت میں یونیسیف کی مدد سے چلنے والا ایک اسکول
بھارت میں یونیسیف کی مدد سے چلنے والا ایک اسکولتصویر: UNICEF India/Sandip Biswas

Unicef کے کارکن بحران زدہ علاقوں میں ہنگامی امداد بھی فراہم کرتے ہیں۔ یہ ادارہ سیاسی سطح پر اِس بات کے لئے بھی کوشاں رہتا ہے کہ اقوامِ متحدہ کے بچوں کے حقوق کے کنونشن کو عملی شکل دی جائے۔ آج پیر کے روز جرمن دارالحکومت برلن میں یونیسیف کی ساٹھ ویں سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں بھی اور سوئٹزرلینڈ کے شہر جنی وا میں جاری کی جانے والی یونیسیف کی ایک خصوصی رپورٹ میں بھی دُنیا بھر میں بچوں کی حالتِ زار کی طرف توجہ دِلائی گئی ہے۔

یونیسیف کے مطابق ہر سال ایک کروڑ سے زیادہ بچے خوراک اور صاف پانی کی کمی اور بنیادی طبی سہولتوں کے بغیر پروان چڑھنے کی وجہ سے موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ابھی بھی اِن میں سے زیادہ تر بچے نمونیے، دَست، ملیریا اور خسرے جیسی قابلِ علاج بیماریوں میں مبتلا ہو کر جان دے دیتے ہیں۔

Unicef کا کہنا ہے کہ 115 ملین بچے تعلیم کے بنیادی حق سے محروم ہیں۔ 126 ملین سے زیادہ بچوں کا معیشی استحصال کیا جاتا ہے، جن میں سے زیادہ تر کی عمر دَس سال سے بھی کم ہے۔ اِس عالمی ادارے کے اندازوں کےمطابق ایک ارب بچوں اور نوعمروں کو اپنی بقا اور ترقی کے لئے بنیادی ترین اَشیاء بھی دستیاب نہیں ہیں۔

جرمن صدر ہورسٹ کوہلر کی اہلیہ ایوا لُوئیزے کوہلر یونیسیف کی سرپرست ہیں۔ اُنہوں نے آج برلن میں کہا کہ ہر اُس بچے سے، جسے ضروری اَشیاء میسر نہیں اور جو لکھ اور پڑھ نہیں سکتا، اُس سے اُس کا مستقبل چھینا جا رہا ہے۔

Unicef کی جرمن شاخ کی چیئرپرسن Heide Simonis نے کہا، یہ ایک اسکینڈل ہے کہ دُنیا بھر میں ایک طرف ہر سال ایک ہزار ارب یورو فوج پر خرچ کر دئے جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف اتنے پیسے نہیں ہیں کہ تمام بچوں کو اسکول بھیجا جا سکے۔

اِس ہزار سالہ عہد کے آغاز پر غربت کے خاتمے، تعلیم عام کرنے، بچوں اور ماﺅں کی اَموات میں بڑے پیمانے پر کمی کرنے، پانی کی فراہمی کو بہتر بنانے اور ایڈز کے پھیلاﺅ کو روکنے جیسے جن اہداف کا تعین کیا گیا تھا، اُن کے حصول کے لئے اقوامِ متحدہ کے اندازوں کے مطابق تقریباً 40 تا 70 ارب ڈالر سالانہ درکار ہوں گے۔

جنی وا میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں یونیسیف نے بتایا کہ مشرقی افریقہ میں تقریباً چالیس ہزار بچے قحط کا شکار ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کینیا، صومالیہ اور ایتھوپیا میں چَھ مہینے سے جاری خشک سالی کی وجہ سے بچے غذائی قلت کا اِس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ آئندہ مہینوں میں کوئی مدد نہ ملی تو وہ موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔

اِسی خطے میں سن 2000ء کی شدید خشک سالی کی وجہ سے تقریباً ایک لاکھ انسان ہلاک ہو گئے تھے۔ یونیسیف نے بین الاقوامی برادری سے ایک بار پھر مدد کی اپیل کی ہے۔ یونیسیف کے مطابق اُسے مطلوبہ80 ملین ڈالر میں سے اب تک صرف ایک تہائی رقم فراہم کی گئی ہے۔