1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یونان میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کو قرنطینہ کر دیا گیا

6 اپریل 2020

یونان میں پناہ گزیں کیمپوں میں مقیم بعض افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد ایسے کیمپوں کو قرنطینہ کر دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ تارکین وطن کو جزیرے کے کیمپ سے نکال کر ملک کے اندر لایا جائے۔

https://p.dw.com/p/3aUN7
Griechenland Flüchtlingslager in Malakasa
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Tzortzinis

یونان میں محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ کیمپ میں 53 سالہ ایک افغان پناہ گزیں کے کورونا وائرس سے متاثر پائے جانے کے بعد تارکین وطن کے ایک اور کیمپ کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے۔ مذکورہ افغان شہری ملکاسا  کیمپ، جو ایتھنز سے تقریبا 45 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے، میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہ رہ رہا تھا۔ محکمہ صحت کے حکام اب اس وائرس کے پھیلنے کے سلسلہ کو تلاش کرنے میں لگے ہیں کہ متاثرہ شخص کا کس کس سے رابطہ ہوا ہوگا اور کون کو ن متاثر ہوا ہوگا، تاہم یہ کام آسان نہیں ہے کیونکہ ملکاسا کے  کیمپ میں 1800 تارکین وطن رہتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے رستونہ  کیمپ میں مقیم بعض پناہ گزینوں میں کورونا وائرس کی علامات پائی گئی تھیں جس کے بعد اس کیمپ کو لاک ڈاؤن کر دیا گیا تھا،ملکاسا اس نوعیت کا دوسرا کیمپ ہے۔ یونان میں تارکین وطن اور پناہ گزینوں سے متعلق وزارت کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں طبی امداد مہیا کرنے کے انتظامات کیے گئے ہیں اور دونوں کیمپوں کو چودہ روز تک کے لیے لاک ڈاؤن میں رکھا جائے گا۔

یونان میں حکام اس بات کے تئیں فکر مند ہیں کہ اگر پناہ گزینوں کے کیمپ میں کورونا وائرس وبا کی صورت اختیار کر گیا تو پھر اسے روکنا بہت مشکل ہوجائے گا۔ پورے ملک میں ایک لاکھ دس ہزار سے بھی زیادہ تارکین وطن اس طرح کے مختلف کیمپوں میں نا گفتہ بہ حالات میں رہنے پر مجبور ہیں۔ اس میں سے چالیس ہزار ایسے تارکین وطن یونان کے جزیرے پر واقع  پرہجوم اور حفظان صحت کی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم کیمپ میں رہتے ہیں۔  

Griechenland Malakasa Flüchtlingslager
ہزاروں تارکین وطن یونان کے جزیرے پر واقع  پرہجوم اور حفظان صحت کی بنیادی سہولیات سے یکسر محروم کیمپ میں رہتے ہیںتصویر: Getty Images/M. Bicanski

اس میں سے بیشتر افراد سن  2015 میں یہاں پہنچے تھے جو مشرقی وسطی، ایشیا اور افریقی ممالک میں جنگ زدہ صورتحال، خانہ جنگی اور غربت و افلاس سے بچنے کے لیے پناہ کے متلاشی ہیں۔ یونان میں پناہ گزینوں کے امور کے وزیر نوٹس نے سرکاری ٹیلیویزن سے بات

 چیت میں کہا، ''چونکہ (مہاجرین اور پناہ گزینوں کی) تعداد بہت زیادہ ہے تو اس حساب سے یہ بات تو طے ہے کہ ایسے مصدقہ کیسز ہوں گے۔ اس کے لیے ہمارے پاس ایک ایمرجنسی منصوبہ ہے۔۔۔۔ لیکن جزیرے پر اسے نافذ کرنا بہت مشکل کام ہے۔''

ادھر انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں نے یونان کی حکومت سے جزیرے پر واقع کیمپ میں رہنے والے مہاجرین کو ملک کے اندر واقع مراکز میں منتقل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ یونان کے اندر اس طرح کے تارکین وطن کے جو مراکز ہیں وہ جزیرے پر واقع کیمپوں کے مقابلے میں کم بھیڑ بھاڑ والے اور قدرے صاف ستھرے ہیں۔ 

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم 'ہیومن رائٹس واچ' میں ریسرچر ایوا کاس کا کہنا ہے کہ جزیرے کے کیمپوں میں جو صورتحال ہے اس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے صحت عامہ سے متعلق اصول و ضوابط پر عمل کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے، ''ایسی جگہ جہاں رہائش کے حالات ہی نا قابل قبول ہوں، وہاں ہزاروں مرد و خواتین، اور بچوں پر مشتمل زبردست بھیڑ والے کیمپوں میں پابندیاں لگا کر لوگوں کو کووڈ-انیس سے بچانے کے لیے الگ تھلگ کرنا ناممکن ہے، ان کے لیے تو اس سے بچنے کے لیے، ہاتھ دھونے اور معاشرتی فاصلہ رکھنے جیسے بنیادی حفاظتی اقدامات،پر عمل کرنا ہی ممکن نہیں ہے۔'' 

ص ز/ ج ا  (ایجنسیاں)