1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کا سخت تر کاپی رائٹس قانون، بیس ممالک میں مظاہرے

23 مارچ 2019

یورپی یونین کے کاپی رائٹس قانون کو سخت تر بنا دینے کی کوششوں کے خلاف یونین کے رکن ممالک میں سے تقریباﹰ بیس میں آج ہفتہ تئیس مارچ کو وسیع تر احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ یہ نیا قانون آئندہ چند روز میں منظور ہو جائے گا۔

https://p.dw.com/p/3FYjc
تصویر: picture alliance/dpa/C. Soeder

وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق یہ قانون یورپی یونین میں نافذ کاپی رائٹس قانون میں بہت بڑی ترمیم قرار دیا جا رہا ہے اور یورپی پارلیمان میں اس مسودہ قانون پر رائے شماری منگل چھبیس مارچ کو ہو گی۔ کافی زیادہ امکان ہے کہ ارکان پارلیمان اکثریتی رائے سے اس نئے قانون کی منظوری دے دیں گے۔

یہ قانون دراصل اب تک مروجہ قانون کی کافی متنازعہ سمجھی جانے والی شق نمبر تیرہ میں ترمیم کی ایک تجویز ہے، جس کی دو درجن سے زائد رکن ممالک میں سے 20 کے قریب ریاستوں میں کئی ملین شہریوں کی طرف سے شدید مخالفت کی جا رہی ہے۔

اس مجوزہ قانون کے مخالفین نے آج ہفتے کے روز جرمنی، آسٹریا، پولینڈ، چیک جمہوریہ، ہالینڈ، قبرص، فن لینڈ اور پرتگال سمیت ڈیڑھ درجن سے زائد یورپی ممالک میں احتجاج کا پروگرام بنا رکھا ہے۔ جرمنی میں، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک، سب سے بڑی معیشت اور عوامی سطح پر اس مجوزہ قانون کی بھرپور مخالفت میں سب سے آگے ہے، برلن، کولون، ہیمبرگ، میونخ، ہینوور اور فرینکفرٹ سمیت بہت سے شہروں میں اس قانونی ترمیم کے خلاف مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔

BERLIN Protest gegen Uploadfilter und EU-Urheberrechtsreform
مجوزہ ترمیم کے خلاف مظاہرہ: ’اس مظاہرے کو بھی کاپی رائٹس قانون کی وجہ سے نہیں دکھایا جا سکتا‘تصویر: picture alliance/dpa/C. Soeder

مسروقہ مواد کے خلاف آن لائن فلٹر

عام یورپی صارفین کو اس ترمیم کے جس حصے پر سب سے زیادہ اعتراض ہے، وہ یہ ہے کہ آئندہ بڑی بڑی ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کمپنیوں کو اپنے ہاں ایسے فلٹر متعارف کرانا پڑیں گے، جن کی مدد سے اس امر کو یقینی بنایا جا سکے گا کہ عام صارفین جو آڈیو، ویڈیو یا تصویری مواد اپ لوڈ کریں گے، اس کی اشاعت سے کسی بھی طرح کاپی رائٹس قوانین کی خلاف ورزی نہ ہوتی ہو۔

اس مجوزہ ترمیم پر اس لیے بھی بڑی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی طرف سے تنقید کی جا رہی ہے، کہ یوں سوشل میڈیا کمپنیوں سمیت بڑے بڑے آن لائن پلیٹ فارمز کو اس قانون کی نئی شقوں کے تحت کاپی رائٹس کی خلاف ورزی پر جواب دہ بنایا اور ان سے زر تلافی کا مطالبہ بھی کیا جا سکے گا۔

کئی ناقدین اس نئے قانون پر اس وجہ سے بھی تنقید کر رہے ہیں کہ ان کے بقول اس طرح بہت سے نئے اور قدرے چھوٹے ادارے ایسے آن لائن فلٹر خریدنے پر مجبور ہو جائیں گے، جو بہت مہنگے ہوں گے اور عین ممکن ہے کہ وہ ایسے فلٹر خریدنے کی اہلیت ہی نہ رکھتے ہوں۔

ان ناقدین کا ایک دعویٰ یہ بھی ہے کہ اس نئے قانون کا مطلب کسی حد تک سنسرشپ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح کوئی بھی ڈیجیٹل فلٹر ایسے حوالوں، بیانات اور طنزیہ مواد کو بھی روک لے گا، جس پر ممکنہ طور پر کاپی رائٹس قانون لاگو ہوتا ہو۔

قانونی ترمیم کی وسیع تر حمایت بھی

دوسری طرف یورپی یونین میں بہت سے بڑے میڈیا ادارے اور کاپی رائٹس قوانین کے احترام کے حامی آن لائن پلیٹ فارمز اس نئے قانون کے سرگرم حامی بھی ہیں۔ ان اداروں کے مطابق اس قانون کے منظوری کے ساتھ یورپی یونین آزاد میڈیا میں جھوٹ کا راستہ روک سکے گی اور حقوق دانش کا بہتر تحفظ ممکن ہو سکے گا۔

یورپی یونین کے رکن مختلف ممالک کے 18 خبر رساں اداروں نے گزشتہ برس ستمبر میں یورپی یونین کے نام ایک مشترکہ خط بھی لکھا تھا، جس میں اس مجوزہ قانون کی آئندہ منظوری کو ایک خوش آئند قدم قرار دیا گیا تھا۔

م م /  ع ح / ڈی پی اے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں