1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین میں شہریت ’پیسہ پھینک تماشہ دیکھ‘

22 اپریل 2013

قبرص کے صدر نے روسی تاجروں کو اپنے ملک میں سرمایہ کاری کے بدلے میں شہریت دینے کا اعلان کیا ہے۔ ساتھ ہی متعدد یورپی ممالک نے دولت مند افراد کو شہریت دینے کے سلسلے میں واضح آسانیاں پیدا کا فیصلہ کیا ہے

https://p.dw.com/p/18Kd7
تصویر: Patrick Baz/AFP/Getty Images

پیسہ انسان کو کافی حد تک خوشی فراہم کر سکتا ہے، خاص طور پر ان لوگوں کو، جواس کے بل بوتے پر یورپی یونین کے کسی ملک کی شہریت حاصل کرنا چاہتے ہوں۔ یورپی یونین کے کئی ممالک میں سرمایہ کاری کے بدلے شہریت دینے کا سلسلہ تو پہلے ہی سے موجود تھا تاہم آج کل کی مشکل معاشی صورتحال میں سرمایے کی حد کو مزید کم کر دیا گیا ہے۔

یورپی یونین کے کئی رکن ملکوں کی پیشکش ان افراد کے لیے بہت ہی دلچسپی کا باعث ہے، جو دولت مند ہونے کے ساتھ ساتھ بدامنی کے شکار کسی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یورپی پارلیمان کے ماحول دوست گرین پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن فلپ البریشٹ (Philipp (Albrecht اس طرح کے اقدامات کو نا مناسب سمجھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تمام یورپی ممالک میں تارکین وطن سے متعلق پالیسیاں یکساں ہونی چاہییں۔ ’’میں بنیادی طور پر اسے غلط سمجھتا ہوں، جب خاص طور پرکوئی بھی یورپی ملک اپنی مرضی سے اپنی شہریت تقسیم کرے۔ ایسے بہت سے افراد شہریت حاصل کرنے کے منتظر ہیں، جن کا کاروبار زندگی یورپی یونین کے کسی رکن ملک کی وجہ سے چل رہا ہے۔ وہ ان ممالک میں طویل عرصے کام کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں شہریت دینے کا قانون ہر ملک میں ایک جیسا ہونا چاہیے‘‘۔

Symbolbild deutscher Reisepass EU Europa Reisefreiheit Deutschland
یورپی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے کے بعد شہریت حاصل کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق روس، چین اور بھارت سے ہےتصویر: Fotolia/m.schuckart

اگر خواہش مند افراد کو یورپی یونین کے کسی بھی ملک کی شہریت مل جائے، تو بہت سے غیر یورپی ممالک کی ویزا شرائط کافی حد تک کم ہو جاتی ہیں۔ ساتھ ہی یورپی یونین میں کاروبار شروع کرنا بھی بے حد آسان ہو جاتا ہے۔ یورپی یونین کے رکن قبرص کی شہریت تین ملین یورو جمع کرانے کے بعد حاصل کی جا سکتی ہے۔ ملکی صدر نیکوس اناستاسیادیس کی جانب سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا، جب جنوبی قبرص میں روسی تاجروں کا ایک اجلاس ہو رہا تھا۔

اس موقع پر صدر اناستاسیادیس کا کہنا تھا کہ انہیں یورپی یونین کے امدادی پیکج سے ہونے والے فائدے کے ساتھ ساتھ اِس کے نقصانات کا بھی بخوبی اندازہ ہے۔ اس سے قبل بھی قبرص کی شہریت خریدی جا سکتی تھی تاہم اس کے لیے پندرہ ملین یورو پانچ سال کے لیے بینک میں جمع کرانا ہوتے تھے۔

یہ بات بھی حقیقت ہے کہ یورپی یونین میں تارکین وطن سے متعلق پالیسیاں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔2001ء تک آئرلینڈ کی شہریت بڑی آسانی سے سرمایہ کاری کرنے کے بعد حاصل کی جا سکتی تھی۔ آج کل تعلیم و تربیت، صحت، فن و ثقافت یا کھیل کے کسی منصوبے میں پانچ لاکھ یورو کی سرمایہ کاری کرتے ہوئے آئرلینڈ میں قیام کا اجازت نامہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پرتگال میں شہریت کو جائیداد خریدنے سے مشروط کیا گیا ہے۔ اسپین میں بھی مستقبل میں ایسے ہی اقدامات متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ہنگری میں حکومتی بانڈز خریدنے کے بعد شہریت حاصل کرنے کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ یورپی ممالک میں سرمایہ کاری کرنے کے بعد شہریت حاصل کرنے والے زیادہ تر افراد کا تعلق روس، چین اور بھارت سے ہے۔

یونیورسٹی میونسٹر کے پروفیسر ڈیٹرش تھرین ہارڈ ’ Dietrich Thränhardt ‘ کہتے ہیں بظاہر یہ ایک گھمبیر مسئلہ ہے۔ ’’ لیکن اس سے یورپی یونین کوکوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ کیونکہ اس طرح لوگوں کی ایک قلیل تعداد ہی شہریت حاصل کر سکتی ہے‘‘۔

شہریت دینے کے حوالے سے آسٹریا ایک معروف ملک ہے۔ یہاں قانون نے حکومت کو یہ اختیار دیا ہوا ہے کہ وہ سرمایہ کاری کرنے والوں یا ملک کے مفاد میں غیر معمولی کارکردگی دکھانے والوں کو شہریت دے سکتی ہے۔ آسٹریا کے حکومتی ذرائع کے مطابق 2012ء میں کسی بھی غیر ملکی کو اس قانون کے تحت شہریت نہیں دی گئی۔ جبکہ2011ء میں 23 افراد قانون کی اس خاص شق سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہو پائے تھے۔

Schengengrenze Bulgarien - Türkei
یورپی یونین کے رکن قبرص کی شہریت تین ملین یورو جمع کرانے کے بعد حاصل کی جا سکتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

یورپی پارلیمان کے رکن فلپ البریشٹ کہتے ہیں کہ یورپی یونین میں شہریت حاصل کرنےکے حوالے سے بنائے گئے قوانین میں فوری طور پر اصلاحات نہیں لائی جا سکتیں۔ ’’شہریت دینے کا معاملہ ابھی تک یورپی سطح پر زیر بحث نہیں آیا ہے۔ بلکہ اس موضوع پر انتہائی محتاط رویہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ میں اسے ایک غلطی سمجھتا ہوں‘‘۔

ڈیٹرش تھرین ہارڈ کہتے ہیں کہ آسٹریا میں شہریت حاصل کرنے کا معمول کا طریقہ کار دوسرے یورپی ممالک کے مقابلے میں بہت طویل اور پیچیدہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر یورپی یونین کی تارکین وطن سے متعلق پالیسیوں پر نظر ڈالی جائے تو یہ واضح ہو جائے گا کہ تمام ملکوں نے دولت مندوں کے لیے اپنے ہاں آسانیاں پیدا کر رکھی ہیں۔

J.Mahncke/ ai / aa