1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین میں بھی خواتین کو تشدد کا سامنا

عابد حسین5 مارچ 2014

ایک تازہ تحقیقی ریورٹ کے مطابق یورپی یونین میں خواتین کو جنسی زیادتی کے علاوہ جسمانی تشدد کا بھی سامنا ہے۔ یہ رپورٹ یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی EU Fundamental Rights Agency نے مرتب کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1BKOO
تصویر: picture-alliance/dpa

یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے EU Fundamental Rights Agency کی مرتب کردہ رپورٹ کا اِجرا آج بدھ کے روز کیا جا رہا ہے۔ یورپی یونین میں خواتین کی مجموعی صورت حال کی بابت اس اہم ادارے کی رپورٹ کو کلیدی نوعیت کی ریسرچ قرار دیا گیا ہے۔ اِس رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں ہر تیسری عورت کو جنسی زیادتی یا جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے اس رپورٹ کو دنیا کی سب سے بڑی ریسرچ رپورٹ قرار دیا گیا ہے۔

Symbolbild Menschenhandel Zwangsprostitution
خواتین اپنے خلاف ہونے والے تشدد کے بارے کھل کر گفتگو کرنے سے قدرے کتراتی ہیںتصویر: Fotolia/Yuri Arcurs

بنیادی حقوق کے ادارے (FRA) نے یونین کی رکن تمام ریاستوں سے اعداد و شمار اکھٹے کیے ہیں۔ اس رپورٹ کو مرتب کرنے کے لیے کُل 42 ہزار خواتین سے انٹرویو کیا گیا۔ رپورٹ مرتب کرنے والی ایجنسی کے سربراہ مورٹن کیژوم (Morten Kjaerum) نے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں نیوز ایجنسی ڈی پی اے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یورپ بھر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جاتا ہے، وہ انتہائی افسوسناک صورت حال کوبیان کرتا ہے۔ یورپی یونین کی بنیادی حقوق کے ادارے (FRA) کا ہیڈکوراٹر آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں قائم ہے۔ اِس ادارے کے سربراہ مورٹن کیژوم ڈنمارک کے انسانی حقوق کے وکیل ہے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو اپنے ادارے کی اس انتہائی اہم رپورٹ کی مناسبت سے مورٹن کیژوم نے تفصیلات بیان کرتے ہوئے بتایا کہ یورپ بھر میں خواتین گلیوں میں محفوظ نہیں، گھر کے اندر بھی وہ پرسکون حالات سے محروم ہیں حتیٰ کہ انہیں ملازمت کے مقام پر بھی نامناسب ماحول کا سامنا رہتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق یورپ میں سن 2012 سے قبل کے بارہ مہینوں یا اس سے کچھ زیادہ عرصے کے دوران 13 ملین خواتین کو جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسی عرصے کے دوران 3.7 ملین خواتین کو جنسی زیادتی کا سامنا رہا۔

رپورٹ کے لیے جن خواتین سے انٹرویو کا عمل مکمل کیا گیا، ان کے مطابق ڈنمارک، فن لینڈ اور سویڈن وہ ممالک ہیں جہاں خواتین کی سب سے زیادہ تعداد کو مختلف قسم کے تشدد کا سامنا رہا۔ ان ملکوں میں تشدد کا سامنا کرنے والی مختلف عورتوں نے بتایا کہ پندرہ برس کے عمر کے بعد سے مارپیٹ، جلانے، گلا گھوٹنے کے علاوہ انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ڈنمارک میں ایسے تشدد کا سامنا کرنے والی خواتین کی شرح 52 فیصد، فن لینڈ میں 47 فیصد اور سویڈن میں 46 فیصد رہی۔

یورپی یونین کے بنیادی حقوق کے ادارے (FRA) کی ریسرچ ٹیم کی سربراہ جوآنا گُڈے (Joanna Goodey) کے مطابق تشدد کی کم شرح رکھنے والے ملکوں میں پانچ میں سے ایک خاتون کو جنسی و جسمانی زیادتی کا سامنا ہوتا ہے اور یہ کسی طور پر بھی حوصلہ افزاء نہیں ہے۔ ریسرچ کے مطابق یورپ کے جنوبی ملکوں اسپین، اٹلی اور یونان میں بھی خواتین کو زیادہ زیادتی والے ملکوں میں شمار کیا گیا ہے۔

Symbolbild Menschenhandel Zwangsprostitution häusliche Gewalt
خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے اس رپورٹ کو دنیا کی سب سے بڑی ریسرچ رپورٹ قرار دیا گیا ہےتصویر: Fotolia/Artem Furman

یورپی یونین میں اس مناسبت سے کم سے کم شرح کی حد تینتیس فیصد رکھی گئی ہے۔ اس سے زیادہ شرح کے حامل ملک منفی صورت حال کے عکاس ہیں۔ ریسرچ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ یورپ کے شمالی اور جنوبی حصے کے ملکوں کی خواتین اپنے خلاف ہونے والے تشدد کے بارے کھل کر گفتگو کرنے سے قدرے کتراتی ہیں جبکہ نارڈک ملکوں کی خواتین نے جنسی و جسمانی زیادتی کے احوال کو بیان کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔

ریسرچ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یورپی یونین کی رکن ریاستوں کی ایک چوتھائی خواتین کو پندرہ سال سے کم عمر میں والدین کی جانب سے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ بارہ فیصد خواتین جب لڑکیاں تھیں تو نامعلوم افراد نے انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یورپی یونین کے ملکوں کی 45 فیصد خواتین کا کہنا ہے کہ انہیں ان کی مرضی کے خلاف چھو کر ہراساں کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔

انہی خواتین کو بعض اوقات غیر اخلاقی مذاق، نامناسب پیغامات یا پورنوگرافی کے علاوہ جنس مخالف کے پوشیدہ اعضاء دیکھنے پر بھی مجبور کیا گیا۔ اِن خواتین کے مطابق بظاہر ان کے جسم پر کوئی نشان تو نہیں ظاہر ہوا لیکن وہ نفسیاتی اعتبار سے اپنے ذہن پر دھبہ محسوس ضرور کرتی رہی ہیں۔ ایک تہائی خواتین کی تعداد کو ڈیپریشن کا سامنا اس وجہ سے ہوا کہ انہیں مارا پیٹا گیا یا پھر جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔