یورپی یونین: ترکی کے ساتھ مذاکرات کی بحالی پر مشروط رضامندی
25 جون 2013ستائیس رکنی یورپی یونین کے وزرائے خارجہ کے منگل 25 جون کو لکسمبرگ میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ انقرہ کے ساتھ بات چیت بحال تو کر دی جائے گی تاہم ترکی کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران شرکاء پر کریک ڈاؤن کے حالیہ واقعات کے باعث یہ بحالی فوری طور پر ممکن نہیں ہو گی۔
یونین کے وزرائے خارجہ نے انقرہ کے ساتھ مذاکرات کی آئندہ بحالی کو ترکی سے متعلق یونین کی مستقبل قریب میں پیش کی جانے والی ایک رپورٹ سے مشروط بھی کر دیا ہے۔ اس رپورٹ میں یہ جائزہ لیا جائے گا کہ آیا رکنیت کی صورت میں ترکی ایک ریاست کے طور پر خود کو یورپی یونین سے ہم آہنگ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
یہ رپورٹ اس سال اکتوبر میں پیش کی جائے گی۔ یونین کے وزرائے خارجہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال اکتوبر کے بعد انقرہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی اس رپورٹ کے مندرجات کی روشنی میں ہی عمل میں آنی چاہیے۔
لکسمبرگ میں یورپی وزراء کے اس فیصلے کے بعد ترک وزیر خارجہ احمد داووتوگلو نے کہا کہ ترکی اور یورپی یونین کے باہمی تعلقات کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ عبور کر لی گئی ہے۔ ترک وزیر خارجہ نے کہا کہ ترکی تہیہ کیے ہوئے ہے کہ وہ یورپی یونین میں شمولیت کے لیے برسلز کے مطالبہ کردہ تمام اقتصادی اور سیاسی معیارات پورے کرے گا۔
انقرہ اور برسلز کے مابین یونین میں ممکنہ شمولیت سے متعلق مذاکرات پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق جون کی آخری دہائی میں شروع ہونا تھے۔ لیکن جرمنی اور دیگر ملکوں نے یہ کہہ کر ان کا راستہ روک دیا تھا کہ اس بات چیت کی بحالی سے یہ مطلب بھی نکالا جا سکتا تھا کہ یورپی یونین ترکی میں حکومت مخالف مظاہروں کے دوران مظاہرین پر سکیورٹی دستوں کے کریک ڈاؤن کی حمایت کر رہی ہے۔ ان مظاہروں میں چند افراد ہلاک لیکن ہزاروں زخمی ہو گئے تھے۔
ترکی نیٹو کا رکن ملک اور مشرق وسطیٰ کی علاقائی سیاست میں اثر و رسوخ کی حامل ایک ایسی ریاست ہے، جس کے یونین میں آئندہ شمولیت سے متعلق برسلز کے ساتھ باقاعدہ مذاکرات سن 2005 میں شروع ہوئے تھے۔
ان مذاکرات میں آج تک ترکی کے یونین کے رکن ملک قبرص کے ساتھ پائے جانے والے تنازعے کے باعث بہت کم پیش رفت دیکھنے میں آئی۔ اس کے علاوہ یونین کے چند رکن ملک بھی اس امکان کے مخالف ہیں کہ کافی زیادہ آبادی والے ایک مسلمان ملک کو اس بلاک میں شامل کر لیا جائے۔
mm / ij (AP)