1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین اور بھارت کی سربراہ کانفرنس کا آغاز

10 فروری 2012

ئی دہلی ميں يورپی يونين اور بھارت کی 12 ويں سربراہ کانفرنس آج سے شروع ہو گئی ہے۔ اس ميں بھارت اور يورپی يونين کے درميان آزادانہ تجارت کے معاہدے کی بات چيت اپنے فيصلہ کن مرحلے ميں داخل ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/141Uw
دہلی ميں بھارت اور يورپی يونين سربراہ کانفرنس کا ايک منظر
دہلی ميں بھارت اور يورپی يونين سربراہ کانفرنس کا ايک منظرتصویر: AP

يورپی يونين اور بھارت کے درميان آزاد تجارت کا معاہدہ ايک بہت بڑا قدم ہو گا۔ اگر يہ طے پا جاتا ہے تو آبادی کے لحاظ سے يہ دنيا ميں سب سے بڑا آزاد تجارتی زون ہو گا۔ بھارت اور يورپی يونين کی مجموعی آبادی 1.8 ارب ہے جو عالمی آبادی کے ايک چوتھائی سے بھی زيادہ ہے۔

ليکن سن 1990 کے عشرے کے شروع ميں رفتہ رفتہ ہی اپنی تجارتی منڈيوں کے دروازے کھولنے والے ملک بھارت ميں مغربی صنعتی ممالک کے منڈی کے عوامل پر منحصر سرمايہ دارانہ ماڈل کے خلاف اب بھی بہت واضح تحفظات اور اعتراضات پائے جاتے ہيں۔ بھارت کی مشہور سماجی کارکن ارونا روئے تنقيد ميں پيش پيش ہيں: ’’ہم نئی راہيں اختيار کرنے کی ہمت نہيں کرتے۔ ہم چاہتے ہيں کہ دنيا بھر ميں سب ايک ہی کوکا کولا پیئں اور ہر دکان ميں ايک ہی طرح کی پيپسی فروخت ہو۔ ہم سب کچھ يکساں کر دينا اور ايک ہی معيار کا بنا دينا چاہتے ہيں۔ اس سے کرپشن اور استحصال پيدا ہوتا ہے۔ منڈيوں کو آزاد بنا دينے کا فائدہ انتہائی غريب افراد تک نہيں پہنچتا۔‘‘

بھارتی وزير اعظم من موہن سنگھ
بھارتی وزير اعظم من موہن سنگھتصویر: AP

يورپی يونين اس وقت بھی بھارت کی اہم ترين تجارتی ساتھی ہے اور دوسری طرف بحران زدہ يورپ کے ليے پھيلتی ہوئی ايشيائی منڈيوں پر انحصار لازمی ہو گيا ہے۔

آزاد تجارت کے معاہدے کے مذاکرات سن 2007ء سے جاری ہيں۔ ليکن دونوں فريقوں کے مطالبات کی وجہ سے يہ ابھی تک طے نہيں پا سکا ہے۔ يورپی يونين اور خاص طور پر جرمنی کا ايک مطالبہ يہ ہے کہ يورپی کاروں کی درآمد پر بھارتی محصول ميں کمی کی جائے کيونکہ يہ بہت زيادہ ہے۔ ليکن بھارت کو يہ خدشہ ہے کہ محصول ميں کمی سے بی ايم ڈبليو يا فوکس ويگن جيسی بڑی کمپنياں اپنے کارخانے بھارت ميں لگانے کے بجائے اُس کی مارکيٹ کو اپنی تيارشدہ موٹر گاڑيوں سے بھر ديں گی۔ اسی طرح يورپی يہ چاہتے ہيں کہ اُن کے بينک، سپر مارکٹيں اور انشورنس کمپنياں بھارت ميں کاروبار کر سکيں ليکن بھارت کو مقابلے کا خطرہ ہے۔

برسلز ميں يورپی کونسل کے صدر دفتر پر يورپی اور بھارتی جھنڈا
برسلز ميں يورپی کونسل کے صدر دفتر پر يورپی اور بھارتی جھنڈاتصویر: DW

نوجوان ماہر اقتصاديات جوشی کے خيال ميں يورپی مصنوعات سے تجارتی مقابلے کے نتيجے ميں بھارتی مصنوعات کا معيار بہتر ہو جائے گا۔

سياسی ميدان ميں بھی ايشيا کی تيسری بڑی معيشت بھارت اور يورپی يونين ميں اختلاف رائے ہے۔ بھارت ايران پر پابنديوں ميں شرکت نہيں کرنا چاہتا۔ وہ اپنا 12 فيصد تيل ايران سے خريدتا ہے اور ايک ايٹمی طاقت کی حيثيت سے اُسے ايرانی ايٹمی پروگرام سے اتنا خطرہ نہيں معلوم ہوتا جتنا کہ يورپ اور امريکہ کو ہے۔

رپورٹ: زانڈرا پيٹرسمن، نئی دہلی / شہاب احمد صديقی

ادارت: ندیم گِل