1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی عہد وسطیٰ میں حق کی جنگ

7 مئی 2023

آج بھی مغرب اور مشرق کے درمیان سیاسی، معاشی اور نظریاتی تنازعات قوموں کے ذہن کو جنگ کے خوف میں مبتلا رکھتے ہوئے مہلک سے مہلک اسلحے کی تیاری کا باعث بنے ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4R0El
DW Urdu Blogger Mubarak Ali
تصویر: privat

مفکرین اس پر بحث کرتے چلے آئے ہیں کہ کیا دنیا سے جنگ کاخاتمہ ممکن ہے؟ کچھ کا خیال تھا کہ اگر ریپبلکن نظام دنیا میں قائم ہو جائے تو اس کے نتیجے میں جنگ کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ آج بھی مغرب اور مشرق  کے درمیان سیاسی، معاشی اور نظریاتی تنازعات  قوموں کے ذہن کو جنگ کے خوف میں مبتلا رکھتے ہوئے مہلک سے مہلک اسلحے کی تیاری کا باعث بنے ہوئے ہیں اورماضی کے مقابلے میں حال اور مستقبل میں ہونے والی جنگیں اس دنیا کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔

 حق کی جنگ کے نظریات یونان اور روم کے بعد یورپی عہد وسطیٰ میں آئے اور ان کی بنیاد پر حق کی جنگ کے تصورات میں تبدیلی آئی۔ عیسائیت کے ابتدائی دورمیں اس کی تشریح کرنے والے راہب اور چرچ کے عہدیدار تھے۔ کیونکہ عیسائی مذہب کو پرامن کہا جاتا تھا۔ اس لیے ان کے لیے یہ مشکل تھا کہ جنگ کو کیسے جائز کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے مختلف تاویلوں کا سہارا لیا گیا۔ مثلاً یہودیوں کی مذہبی کتاب Old Testament ''عہد نامہ عتیق‘‘ سے یہ واقعہ پیش کیا گیا کہ جب یہودی فلسطین جارہے تھے تو کچھ قبائل نے ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔ اس پر خدا کا یہ حکم نازل ہوا کہ ان سے جنگ کرو اور چن چن کر ان کو قتل کر ڈالو۔ دوسرا حکم یہ تھا کہ مردوں کو قتل کرو اور عورتوں کو کنیزیں بنا لو۔ اس کے بعد بائبل میں ایسے واقعات کو تلاش کیا گیا کہ جن میں جنگ کا ذکر ہو اور جنگ کو امن کا سبب بتایا گیا ہو۔

ایمبروز میلان شہر کا بشپ تھا، جس نے اٹلی کے بادشاہ کے خلاف یہ فتویٰ دیا تھا کہ اس نے جنگ میں شہریوں کا قتل عام کیا ہے۔ اس پر بادشاہ نے اعتراف جرم کیا۔ جس پر اسے معافی دی گئی۔ پانچویں صدی عیسوی میں سینٹ آگستین نے حق کی جنگ کے بارے میں اپنے خیالات کو پیش کیا تھا۔ اس کے مطابق جنگ میں لڑنے والوں کے ساتھ ان کے حامیوں کو بھی قتل کرنا جائز ہے۔ وہ اس پر بھی اسرار کرتا ہے کہ جب کسی قلعے کا محاصرہ کیا جائے توقلعے میں رہنے والے مردوں، عورتوں اور بچوں کو بھی قتل کر دینا چاہیے۔ وہ اس کابھی حامی ہے کہ شکست کے بعد مخالف فوج کے فوجیوں کو زندہ نہیں چھوڑنا چاہیے۔ قتل عام کے بارے میں اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر مخالفین کو زندہ چھوڑ دیا گیا تو وہ پھر خطرے کا باعث ہوں گے۔

سینٹ آگستین کے بعد حق کی جنگ کے بارے میں مزید تبدیلیاں آئیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ تر جنگیں عیسائی ملکوں کے درمیان ہوتی تھیں، جن میں دونوں جانب سے ہم مذہب لوگوں کا قتل ہوتا تھا۔ اس قتل عام کو روکنے کے لئے چرچ کے عہدیداروں نے کچھ شرائط عائد کیں۔ مثلاً مذہبی رہنما جن میں راہب اور ننیں شامل تھیں ان کی حفاظت کی جائے گی۔ چرچ کی جائیداد کو نہیں لوٹا جائے گا۔ وہ لوگ جو ہتھیار بند نہیں، ان کو معاف کر دیا جائے گا، کسی عیسائی کو غلام نہیں بنایا جائے گا۔ خاص طور سے یہ شرائط نائٹس کے لئے تھیں جو اپنی بہادری پر فخر کرتے تھے اور نہتے دشمن پر حملہ نہیں کرتے تھے۔حق کی جنگ کے لئے یہ ضروری تھا کہ یہ مال و دولت کے لالچ کے لیے نہ ہو اور اسی وقت لڑی جائے جب دشمن نے کسی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہو یا اس کی جانب سے حملے کا خطرہ ہو۔ اس صورت میں جنگ کر کے انتقام لینا چاہیے اور دشمن کے خطرے کو قتل و غارت گری کے ذریعے ختم کر دینا چاہئے۔ 

 عیسائیت کے ایک مفکر اور راہنما تھامیس ایکواناس نے حق کی جنگ کے بارے میں یہ رائے دی تھی کہ جنگ کرنے والے کے پاس جائز طاقت ہو اور اس کا مقصد نیک ہو اور وہ جنگ کے ذریعے مذہبی نظام کو قائم کرے۔ عہد وسطیٰ کے مفکرین کی نظر میں وہ جنگ حق نہیں ہے، جو مال و دولت زمینوں پر قبضے اور حکمرانوں اور جرنیلوں کی شان و شوکت کے لیے لڑی جائے۔

 سولہویں صدی میں رینے ساں کے زمانے میں فلورنس کا شہر دانشوروں کی جماعت کا مرکز بن گیا تھا۔ اس کے سیاست دان رومی عہد کی روایات کو ترجیح دے کر جنگ کے بارے میں بھی اپنا رویہ بدل رہے تھے۔ خاص طور سے جب نیکول میکاولی  آیا اس نے سیاست کو بدل ڈالا۔ وہ پکا قوم پرست تھا اور اٹلی کو غیر ملکی تسلط سے آزاد کرانا چاہتا تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے قومی ملیشیا کی تشکیل کی تاکہ اس کی مدد سے آزادی کی جنگ لڑی جائے۔ لیکن اس کو اس لیے ناکامی ہوئی کیونکہ میڈیچی خاندان اسپین کی مدد سے اقتدار میں آگیا اور میکاولی کو جلا وطن ہونا پڑا۔

 عہد وسطیٰ کے ایک مفکر نے رومی سلطنت کے زوال کی وجوہات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ رومیوں کا زوال اس وقت شروع ہوا، جب اس کی فونیقیوں سے جنگیں ختم ہوئی۔ اس کے بعد اس کی فوج میں کرائے کے فوجی آگئے جو لوٹ مار کی خاطر لڑتے تھے۔ جن کا کوئی اعلیٰ مقصد نہیں تھا۔ رومی اس وقت مزید کمزور ہوئے، جب انہوں نے ایک سو چپھیالیس قبل از مسیح میں کارتھیج کو تباہ کیا۔ جب رومیوں کے لیے کوئی دُشمن نہ رہا تو ان کا جنگی جذبہ کم ہوتا چلا گیا۔ لہٰذا مفکرین کی یہ رائے ہے کہ جنگ کے لئے دُشمن کا ہونا ضروری ہے۔ دیسی دیرایوس ایراسمس  نے اگرچہ جنگ کی تو مخالفت کی ہے مگر وہ اس کا حامی ہے کہ عزت، دفاع اور حملہ آور کو روکنے کے لیے جنگ کرنا چاہییے۔

جب اسپین نے جنوبی امریکہ کو فتح کیا تو اس کے مذہبی رہنمائوں میں اس پر بحث ہوئی کہ مقامی لوگوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جائے۔ ایک جماعت وہ تھی، جس نے ارسطو کے نظریے کو تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا کہ مقامی باشندے غیر مہذب، جاہل اورملحد ہیں۔ اس لیے ان کے خلاف جنگ کر کے ان کا خاتمہ کر دیا جائے۔ دوسری جماعت نے ارسطو کے نظریے کو رد کرتے ہوئے اس پر زور دیا کہ یہ سب خدا کے بندے ہیں اور ان کے ساتھ رواداری کا سلوک کرنا چاہیے۔ 

جب یورپی اقوام نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کیا توان کے خلاف جنگ کو جائز قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دی کہ وہ انہیں مہذب بنانا چاہتے ہیں اور ان کو معاشی اورسماجی پسماندگی سے نکال کر ترقی کی جانب لے جانا چاہتے ہیں۔ 

جب اٹھارویں صدی میں امریکہ آزاد ہوا اور 1789ء میں فرانسیسی انقلاب آیا تو ان دونوں ملکوں میں جنگ کے بارے میں نظریات بدل گئے۔ امریکہ کی خانہ جنگی ملک کو متحد رکھنے اور غلامی کے خاتمے کے لیے تھی جبکہ فرانس نے جنگ کے ذریعے یورپ میں انقلابی نظریات کو پھیلایا۔ 

مفکرین اس پر بحث کرتے چلے آئے ہیں کہ کیا دنیا سے جنگ کاخاتمہ ممکن ہے؟ کچھ کا خیال تھا کہ اگر ریپبلکن نظام دنیا میں قائم ہو جائے تو اس کے نتیجے میں جنگ کاخاتمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایسا ہونا ممکن نظر نہیں آتا۔ آج بھی مغرب اور مشرق میں قوموں کے درمیان سیاسی، معاشی اور نظریاتی تنازعات ہیں۔ جو قوموں کے ذہن کو جنگ کے خوف میں مبتلا رکھتے ہوئے مہلک سے مہلک اسلحے کو تیار کر رہے ہیں اورماضی کے مقابلے میں حال اور مستقبل میں ہونے والی جنگیں اس دنیا کو تباہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔