1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی سیاستدان کا اسرائیلی مقننہ سے خطاب، قوم پسندوں کا بائیکاٹ

مقبول ملک13 فروری 2014

یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلس نے اپنے دورہء اسرائیل کے دوران اسرائیلی پارلیمان کنیسٹ سے خطاب کیا، جس دوران یہودی قوم پسندوں کی ایک پارٹی کے منتخب ارکان احتجاجاﹰ واک آؤٹ کر گئے۔

https://p.dw.com/p/1B7mv
مارٹن شُلس اسرائیلی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئےتصویر: picture-alliance/AP

جرمنی سے تعلق رکھنے والے یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلس ایک سوشل ڈیموکریٹ سیاستدان ہیں، جنہوں نے اپنے خطاب کے شروع میں نازی جرمن دور میں ہولوکاسٹ کے دوران چھ ملین یہودیوں کی ہلاکت کو ’بربریت اور خوفناک قتل‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔

بعد میں جب انہوں نے اپنی تقریر میں مشرق وسطیٰ میں آبی وسائل اور ان پر اسرائیلی دسترس کے بارے میں بات کی تو ساتھ ہی انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ آیا وہ دعویٰ درست ہے جو ایک نوجوان فلسطینی نے ان کے ساتھ اپنی حالیہ بات چیت میں کیا تھا۔ مارٹن شُلس کے بقول یہ دعویٰ اس بارے میں تھا کہ فلسطینیوں کے آبی وسائل کا کنٹرول اسرائیل کے پاس ہے۔

EU-Parlamentspräsident Martin Schulz in der Knesset
مارٹن شُلس کی تقریر کے دوران جیوئش پارٹی کے اراکین احتجاج کرتے ہوئےتصویر: Imago

اس موقع پر یورپی پارلیمان کے اسپیکر نے مزید کہا، ’’مجھ سے فلسطینی نوجوانوں کے ایک گروپ نے یہ سوال بھی پوچھا کہ ایک اسرائیلی کو تو روزانہ 70 لٹر پانی استعمال کرنے کی اجازت ہے لیکن ایک فلسطینی روزانہ صرف 17 لٹر پانی استعمال کر سکتا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ مارٹن شُلس نے اپنے خطاب میں ان سابقہ عرب اسرائیلی جنگی علاقوں میں یہودی تعمیرات پر بھی تنقید کی جن پر فلسطینی اپنی ملکیت کے دعوے کرتے ہیں۔

جرمنی سے تعلق رکھنے والے اس یورپی سیاستدان نے اپنے خطاب میں جو نکات اٹھائے، ان پر اسرائیلی پارلیمان کے قوم پسند ارکان کی ناپسندیدگی کو واضح طور پر محسوس کیا جا سکتا تھا۔ پھر اپنے خطاب میں جب یورپی پارلیمان کے اسپیکر نے فلسطینی تنظیم حماس کے زیر کنٹرول غزہ پٹی کی اسرائیلی ناکہ بندی پر سوال اٹھاتے ہوئے یہ کہا کہ یہ اسرائیلی اقدام انتہا پسندی کو ہوا دینے کا موجب بن رہا ہے، تو کنیسٹ کے قوم پسند ارکان نے ان پر الزام لگایا کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور اسرائیل کے خلاف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔

اس پر مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آباد کاروں کی حمایت کرنے والی اسرائیلی قوم پسندوں کی جماعت، Jewish Home پارٹی کے ارکان مارٹن شُلس کی تقریر کا بائیکاٹ کرتے ہوئے ایوان سے رخصت ہو گئے۔ بائیکاٹ کے بعد جیوئش ہوم پارٹی کے سربراہ نفتالی بینیٹ نے مطالبہ کیا کہ مارٹن شُلس کو معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’ہم اپنی پارلیمان میں اسرائیلی عوام کی دروغ گوئی پر مبنی سرپرستی قبول نہیں کریں گے۔ کسی جرمن کی طرف سے تو بالکل نہیں۔‘‘

EU-Parlamentspräsident Martin Schulz in der Knesset
مارٹن شُلس اسرائیلی پارلیمنٹ کے اسپیکر کے ہمراہتصویر: picture-alliance/dpa/Knesset Spokesman Office/Handout

اس خطاب کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے قدرے سفارتی لہجہ استعمال کرتے ہوئے یورپی پارلیمان کے جرمن اسپیکر پر الزام لگایا کہ وہ غلط فلسطینی دعووں کو دہرانے کی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

اسرائیل اور یورپی یونین کے درمیان مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں یہودی آباد کاری کے موضوع پر پہلے ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ مارٹن شُلس کے اس دورے کا مقصد اس کھچاؤ میں کمی تھا لیکن انہوں نے اپنے خطاب میں جو نکات اٹھائے، ان پر اسرائیلی قوم پسند ارکان پارلیمان کے بائیکاٹ سے یورپی اسرائیلی روابط میں پائے جانے والے کھچاؤ میں کوئی کمی تو بہرحال نہیں ہوئی۔

اسی دوران تحفظ ماحول کی وکالت کرنے والے ایک غیر سرکاری گروپ فرینڈز آف ارتھ مڈل ایسٹ کی خاتون ترجمان میرا ایڈل شٹائن نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹد پریس کو بتایا کہ اسرائیلی گھرانوں میں پانی کا فی کس روزانہ استعمال قریب 250 لٹر بنتا ہے جبکہ فلسطینی گھرانوں میں پانی کے فی کس استعمال کی یہی روزانہ اوسط قریب 70 لٹر بنتی ہے۔

میرا ایڈل شٹائن کے بقول یہ حقیقت ہر کوئی جانتا ہے کہ پانی کی یہ تقسیم منصفانہ نہیں ہے۔ فلسطینیوں کو اتنا پانی نہیں مل رہا جتنے پانی کی ان کو ضرورت ہے۔‘‘