’یورپ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں فراموش نہ کرے‘
11 فروری 2012جمعے کے روز ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں یورپی یونین کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ بیجنگ میں ای یو اور چین کے درمیان ہونے والی سربراہ کانفرنس کے موقع پر چین میں آزادی اظہار پر قدغن اور حکومتی ناقدین کے خلاف کارروائیوں کے خلاف یورپ کی تشویش کا ذکر کانفرنس کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی کرے۔
ہیومن رائٹس واچ کی چین کے لیے بطور ڈائریکٹر خدمات سرانجام دینے والی سوفی رچرڈسن کے مطابق، ’یورپ کو انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں کی مذمت کے ساتھ ساتھ بیجنگ حکومت پر زور دینا چاپیے کہ وہ اس سلسلے میں ملک میں شفاف اور مثبت تبدیلیاں لائے‘۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یورپی یونین کو یہ بات بیجنگ حکومت کو باور کروانی چاہیے کہ چین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ناقابل قبول ہیں اور یہ باہمی تعلقات کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔
رواں ماہ کی چھ تاریخ کو ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے یورپی کونسل کے صدر ہیرمن فان رومپوئے اور یورپی کمیشن کے سربراہ یوزے مانوئل باروسو کو تحریر کردہ خطوط میں کہا گیا تھا کہ چین میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم افراد کی حوصلہ افزائی کے لیے یورپی رہنما ان سے ملاقاتیں کریں۔ اس کے علاوہ چین سے باہر رہ کر اپنے ملک میں انسانی حقوق کی تقویت کے لیے کام کرنے والے افراد کی بھی بھرپور حوصلہ افزائی کی جائے۔
ان خطوط میں دونوں اعلیٰ یورپی رہنماؤں کو دیگر تجاویز بھی دی گئی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین چین پر یہ واضح کر دے کہ فریقین کے درمیان طویل تعلقات انسانی حقوق کی خراب صورتحال میں قائم نہیں کیے جا سکتے۔ اس خط میں نوبل انعام برائے امن حاصل کرنے والے چینی مصنف اورحقوق انسانی کےسرگرم کارکن لیو شیابو کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شیابو کو سن 2009ء میں ’تخریب کاری‘ کے الزام میں گیارہ برس کی قید کی سزا سنا دی گئی تھی۔ سن 2010ء میں شیابو کو نوبل انعام دیا گیا تھا، تاہم وہ آج بھی سزائے قید بھگت رہے ہیں۔
رپورٹ: عاطف توقیر
ادارت: عاطف بلوچ