1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپ پہنچنے والے تارکین وطن کو سخت مراکشی اقدامات کا سامنا

17 مئی 2019

انسانی حقوق کے کارکنوں کے مطابق یورپی یونین کے ممالک بحیرہ روم کی نگرانی بتدریج شمالی افریقی ممالک کے حوالے کر رہے ہیں۔ ان ممالک میں مراکش بھی شامل ہے، اس ملک نے بھی سخت حفاظتی اقدامات متعارف کرا رکھے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3Ienm
Rückführung der Flüchtlinge in die Türkei
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Panagiotou

مراکش ایسے نئے تادیبی اقدامات متعارف کرانے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے تا کہ یورپ پہنچنے کے لیے غیر قانونی تارکین وطن اُس کی سرزمین کو استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔ مراکشی حکومت نے رواں برس پچیس ہزار غیرقانونی تارکین وطن کی آبنائے جبرالٹر کو عبور کر کے اسپین پہنچنے کی کوشش کو ناکام بنایا ہے۔

مراکش کے بارڈر سکیورٹی محکمے کے سربراہ خالد زیرولی نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا رواں برس فروری سے اپریل کے دوران اسپین پہنچنے کی تیس فیصد کوششوں کو ناکام بنایا گیا تھا۔ زیرولی کے مطابق انسانی اسمگلنگ کے پچاس منظم مجرمانہ نیٹ ورکس کو ختم کر دیا گیا ہے اور یہ کارروائیاں گزشتہ برس کے مقابلے میں تہتر فیصد زیادہ ہے۔

خالد الزیرولی کا کہنا ہے کہ مجرمانہ کارروائیوں کے حامل گروپوں اور نیٹ ورکس کو سخت مراکشی اقدامات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ شمالی ساحلی پٹی پر پائے جانے والے ناقص ڈھانچے کے ساتھ ساتھ اُن راستوں کا پتہ چلایا گیا ہے، جن کو استعمال کر کے انسانی اسمگلرز اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے تھے۔ مراکشی اہلکار کے مطابق اب انسانی اسمگلروں کے لیے معاملات بڑھانا آسان نہیں رہا ہے۔

Spanien Marokko Ceuta Flüchtlinge überwinden Zaun
رواں برس فروری سے اپریل کے دوران اسپین پہنچنے کی تیس فیصد کوششوں کو مراکشی حکام نے ناکام بنایاتصویر: picture-alliance/dpa/A. Sempere

مراکشی سرحدی سلامتی کے سربراہ کے مطابق انسانی اسمگلر جن راستوں کو استعمال کرتے تھے، اب ان پر ہمہ وقت نگاہ رکھنے کے لیے نگرانی کی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جا رہا ہے اور سکیورٹی عملے کی تعداد میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ اپنے انٹرویو میں تاہم انہوں نے نگرانی کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی کی تفصیلات فراہم نہیں کی۔

زیرولی نے ناقدین کے اُن دعووں کو غلط قرار دیا جو انسانی حقوق کے کارکنوں کے بیانات پر مبنی ہیں۔ انہوں نے غیرقانونی تارکین وطن کو روکنے کے اقدامات کو کریک ڈاؤن کہنے سے اتفاق نہیں کیا۔ زیرولی نے اُن الزامات کو غلط کہا جن میں کہا گیا کہ مراکشی بحریہ کی کشتیاں تارکین وطن کی کمزور کشتیوں کو سنبھالنے سے قاصر ہیں۔

تادیبی اقدامات کے باوجود انسانی اسمگلر غیر قانونی تارکین وطن کو اپنی کمزور کشتیوں پر سوار کر کے یورپ کا رخ کرنے سے گریز نہیں کر رہے۔ گزشتہ دنوں میں مراکشی کوسٹ گارڈز نے تین کشتیوں کو اپنے قبضے میں لیا تھا اور ان پر سوار 117 غیر قانونی تارکین وطن کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ ان تارکین وطن کا تعلق سب صحارا علاقے سے تھا۔