یمنی صدر صالح کی وطن واپسی سترہ جولائی کو، العربیہ
10 جولائی 2011قاہرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق یہ بات عرب ٹیلی وژن العربیہ نے آج اتوار کو اپنی نشریات میں بتائی۔ العربیہ نے اس بارے میں بغیر کوئی نام لیے قابل اعتماد ذرائع کا حوالہ دیا۔ علی عبداللہ صالح ان دنوں سعودی عرب میں ہیں، جہاں وہ ایک ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔ وہ گزشتہ مہینے کے شروع میں یمنی دارالحکومت صنعاء کے صدارتی محل پر کیے گئے ایک حملے میں شدید زخمی ہو گئے تھے۔
العربیہ کے مطابق صدر صالح نے واپس یمن پہنچنے کے ساتھ یمنی عوام اور خاص کر اپنے سیاسی مخالفین کو یہ پیغام دینا چاہیں گے کہ وہ ابھی بھی یمن کے جائز سربراہ مملکت ہیں۔ العربیہ نے بتایا کہ عبداللہ صالح کی صدارتی عہدے کی معیاد ستمبر سن 2013 میں مکمل ہوگی اور وہ ابھی تک اپنے مخالفین کو ایسا کوئی اشارہ نہیں دینا چاہتے کہ وہ یہ مدت پوری ہونے سے پہلے اپنے عہدے سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔
سعودی عرب میں قیام کے دوران گزشتہ جمعرات کو یمن کے صدر نے ملک سے اپنی رخصتی کے بعد ٹیلی وژن پر پہلی مرتبہ یمنی عوام سے مختصر خطاب بھی کیا تھا۔ اس خطاب کے دوران انہوں نے واضح طور پر سخت گیر موقف کا اظہار کیا تھا۔ یمن کے سرکاری ٹیلی وژن پر دکھائے جانے والے خطاب میں علی عبداللہ صالح کے چہرے پر زخموں کے نشان واضح تھے اور ان کے بازوؤں پر پٹیاں بھی بندھی ہوئی تھیں۔ گزشتہ جمعرات کے روز اپنے خطاب میں علی عبداللہ صالح نے اقتدار سے رخصتی کا مطالبہ کرنے والے سیاسی مخالفین کو یہ پیشکش کی تھی کہ وہ قومی سطح کی مکالمت پر تیار ہیں۔ اس دوران علی عبداللہ صالح نے یہ بھی کہا تھا کہ یمن کے موجودہ آئین کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے اور ریاستی سیاسی ڈھانچے کے مطابق وہ اقتدار میں شراکت داری پر بھی تیار ہیں۔
سعودی عرب کے ایک ہسپتال میں ریکارڈ کیے گئے یمنی صدر کے اس بیان پر یمن میں حکومت مخالف مظاہرین نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔ صالح کے مخالفین کا مطالبہ ہےکہ موجودہ صدر کو اب بالآخر اقتدار سے علیٰحدہ ہو جانا چاہیے۔ تقریبا تینتیس سالوں سے یمن کے صدر چلے آ رہے صالح کے خلاف ملک کے کئی ملین شہریوں نے احتجاجی مظاہروں کا آغاز رواں سال فروری میں کیا تھا۔ اس دوران انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی مختلف تنظیموں کے مطابق حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اب تک ساڑے تین سو سے زائد افراد ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: عاطف بلوچ