1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمنی بحران: سعودی عرب کے لیے ممکنہ پاکستانی پیشکش

شامل شمس ⁄ عابد حسین23 اپریل 2015

پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ایک مرتبہ پھر آج سعودی دارالحکومت پہنچی۔ اِس دورے کے دوران پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت سعودی حکومت کے ساتھ یمنی بحران میں ممکنہ تعاون کے حوالے سے گفتگو کر سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FDgS
تصویر: picture alliance/ZUMA Press

پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف آج جمعرات کو سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض پہنچے۔ اُن کے ہمراہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے علاوہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی گئے ہیں۔ اِس وفد میں کئی اہم سویلین اور فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ مبصرین کے مطابق اِس دورے کا بنیادی مقصد سعودی رہنماؤں کو یقین دلانا ہے کہ پاکستان سعودی عرب کی سلامتی پر کوئی حرف نہیں آنے دے گا۔ یہ امر اہم ہے کہ سعودی عرب پاکستان کو مالی وسائل فراہم کرنے والے بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے اور یمن میں حوثی شیعہ باغیوں کے خلاف سعودی اتحادیوں کی صفوں میں شامل ہونے پر پس و پیش کے باعث ریاض حکومت اسلام آباد سے ناخوش دکھائی دیتی ہے۔

جزیرہ نما عرب کے شورش زدہ ملک یمن میں سرگرم حوثی شیعہ ملیشیا کے خلاف سعودی عرب اور اُس کے عرب اتحادیوں نے تقریباً ایک ماہ تک فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ بظاہر 22 اپریل سے ایک منظم آپریشن کو بند ضرور کر دیا گیا لیکن مخصوص اہداف کو نشانہ بنانےکے آپشن کو کھلا رکھا گیا ہے۔ اسی باعث آج جمعرات کو سعودی اتحادیوں کے جنگی طیاروں نے کم از کم بیس مرتبہ یمن کے مختلف مقامات پر منصور ہادی کی مخالف قوتوں کو نشانہ بنایا۔ رواں مہینے کے شروع میں پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف کے سعودی عرب کے دورے کے دوران ریاض حکومت نے پاکستانی جنگی طیاروں، جنگی بحری جہازوں اور فوجیوں کی اپنے زیر قیادت اس عسکری اتحاد میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

Pakistan Militär Patrouille Peschawar
ریاض حکومت نے پاکستانی جنگی طیاروں، جنگی بحری جہازوں اور فوجیوں کی اپنے عسکری اتحاد میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کر چکی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/B. Arbab

اب جبکہ سعودی اتحادیوں کے فضائی مشن کی تکمیل ہو گئی ہے، پاکستان کی سویلین اور فوجی قیادت یمنی بحران سے متعلق کن پہلوؤں پر بات کرنے ریاض گئی ہے۔ خارجہ امور کے ماہرین کے مطابق یمنی تنازعے میں سعودی عرب کو ابھی بھی پاکستانی حمایت کی ضرورت ہے، خواہ یہ سفارتی میدان میں ہو یا لاجسٹکس کی صورت میں۔ ایک پاکستانی سفارت کار کے مطابق یمنی تنازعے کے حوالے سے پاکستان کے عملی طور پر سامنے نہ آنے پر سعودی قیادت اضطراب کا شکار ضرور ہوئی ہے اور نواز شریف اپنے اِس دورے سے اسی اضطراب کو کم کرنے کی کوشش کریں گے۔ سویڈن میں مقیم ریسرچر اور صحافی فاروق سلہریہ کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنے دورے سے دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کو پہنچنے والے نقصان کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔

فاروق سلہریہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاکستان کا سعودی عرب پر اقتصادی انحصار ہے اور پاکستانی حکومت سعودی عرب کی ناراضی کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب میں بہت بڑی تعداد میں پاکستانی بھی کئی شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں اور سعودی خفگی سے یہ پاکستانی اپنے روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔

برطانیہ میں مقیم ایک تجزیہ کار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ پاکستانی افواج پہلے سے سعودی عرب میں موجود ہیں اور پاکستانی فوج کے سربراہ کی وفد میں شمولیت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی ہتھیاروں کی فروخت کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ اِس میں پاکستانی ڈرونز بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان کا سعودی عرب کی جانب غیر معمولی جھکاؤ ہمسایہ ملک ایران کے ساتھ تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد میں مقیم خارجہ امور کے ماہر طارق پیرزادہ کا کہنا ہے کہ یمنی بحران میں پاکستان یقینی طور پر سعودی عرب کو ہی اہمیت دے گا اور اِس سے اسلام آباد اور تہران کے تعلقات میں مزید خرابی یقینی ہے۔