یمن کے صدر نے اقتدار کی منتقلی کی تجویز مسترد کر دی
5 مارچ 2011یمن میں صدر علی عبداللہ صالح کے بتیس سالہ اقتدار کے خلاف مظاہرے شدت پکڑ رہے ہیں، تاہم ان کا کہنا ہے کہ 2013ء میں اپنے اقتدار کی مدت ختم ہونے سے پہلے اقتدار منتقل نہیں کریں گے۔ انہوں نے مذہبی رہنماؤں کی جانب سے تجویز کردہ اصلاحات کے منصوبے پر اتفاق ضرور کیا ہے، جس کے ذریعے انتخابات، پارلیمنٹ اور عدالتی نظام میں تبدیلیاں کی جائیں گی۔
اپوزیشن کے رہنما محمد المتوکلی کا کہنا ہے، ’صدر نے تجویز مسترد کر دی ہے اور وہ اپنی پہلے والی پیش کش پر ہی تیار ہیں۔‘
سعودی عرب کا ہمسایہ یمن ایک پسماندہ ملک ہے اور اسے حکومت مخالف مظاہروں سے پہلے ہی کئی طرح کے مسائل کا سامنا تھا۔ صدر صالح شمال میں شیعہ باغیوں سے جنگ بندی کے لیے کوشاں ہیں تو دوسری جانب جنوب میں وہ بغاوت دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
جمعہ کو دارالحکومت صنعا میں مظاہرین نے یہ نعرے لگائے، ’اے خدایا، ہم تیری منت کرتے ہیں کہ علی عبداللہ سے ہمارا پیچھا چھڑا۔‘
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں مظاہرے اس نہج پر پہنچتے دکھائی دیتے ہیں، جہاں صالح کے لیے اقتدار سے جڑے رہنا مشکل ہو جائے گا۔
قبل ازیں جمعہ کو شیعہ باغیوں نے یمن کی فوج پر الزام عائد کیا کہ اس نے شمالی علاقے Harf Sufyan میں مظاہرین پر راکٹ فائر کیے، جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک جبکہ تیرہ زخمی ہوئے۔
واضح رہے کہ یمن میں حکومت مخالف مظاہرے دراصل دیگر عرب ملکوں میں جاری عوامی احتجاج کے سلسلے کی ہی ایک کڑی ہیں، جن کے نتیجے میں قبل ازیں تیونس اور مصر میں حکومتیں گر چکی ہیں۔
یہ سلسلہ سب سے پہلے تیونس میں شروع ہوا تھا، جس کے نتیجے میں زین العابدین کو اقتدار چھوڑ کر ملک سے فرار ہونا پڑا، جس کے بعد مصر کے سابق صدر حسنی مبارک بھی اٹھارہ روزہ احتجاج کے بعد مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔ اس وقت لیبیا میں بھی وہاں کے رہنما معمر قذافی کے اقتدار کے خلاف پرتشدد مظاہرے جاری ہیں۔
خیال رہے کہ صالح یمن میں قائم القاعدہ کے ونگ کے خلاف امریکہ کے اہم اتحادی بھی ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عاطف توقیر