یمن میں ’فوج اور قبائل‘ نے حکومت مخالف تحریک کی حمایت کر دی
22 مارچ 2011یمن میں طویل عرصے سے منصب صدارت پر فائض صدر علی عبداللہ صالح اپنے دورِ حکومت کے سب سے مشکل حالات سے دوچار ہو گئے ہیں۔ انہیں گزشتہ کچھ عرصے سے عوامی دباؤ کا سامنا ہے، جس میں اب اضافہ ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اور وہ یوں کہ اعلیٰ عسکری قیادت کے بعض اراکین، چندسفیروں اور کچھ اہم قبائل نے مظاہرین کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ تمام حلقے صدر صالح کی باعزت صدارتی محل سے روانگی پر زور دے رہے ہیں۔
یمن کی فوج کے ایک جنرل علی محسن نے کھل کر نوجوانوں کی تحریک کی حمایت کی ہے۔ ان کا یہ بیان الجزیرہ ٹیلی وژن پر نشر ہوا۔ جنرل علی محسن شمال مغربی ملٹری زون کے کمانڈر ہیں۔ ان کے بیان کو صدر صالح کے لیے ایک بڑا دھچکہ قرار دیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ دو جرنیلوں نے بھی عوامی تحریک کی حمایت کا اعلان کیا ہے، جن میں عَمران (Amran ) علاقے کے کمانڈر حامد القوشیبی بھی شامل ہیں۔ دوسری جانب یمن کے وزیر دفاع محمد ناصر علی نے کہا ہے کہ یمن کی فوج صدر صالح کی وفادار ہیں۔
الجزیرہ ٹیلی وژن کے مطابق شام، لبنان، سعودی عرب، مصر، چین اور عرب لیگ میں یمن حکومت کے سفیروں نے مظاہرین پر فائرنگ کے بعد اپنے اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ اس فائرنگ کے نتیجے میں گزشتہ جمعہ کی ریلی میں پچاس سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
علی محسن، صدر صالح کے قبیلے الاحمر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس قبیلے نے بھی صدر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ صدارت چھوڑ دیں۔
دوسری جانب یمن کے دارالحکومت صنعا میں فوج کی بھاری نفری تعینات کر دی گئی ہے۔ صدارتی محل کے ارد گرد بھی ٹینک کھڑے ہیں۔ فوج مرکزی علاقے میں جانے والے افراد کی تلاشی بھی لے رہی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق صدر صالح کو ابھی تک اس بات کا یقین ہے کہ یمن کے بیشتر عوام ان کے حامی ہیں۔ انہوں نے یہی وجہ بیان کرتے ہوئے سعودی عرب کے وزیر خارجہ سعود الفیصل سے حکومت مخالف تحریک میں مصالحتی کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔
اُدھر فرانس پہلا مغربی ملک ہے جس نے واضح طور پر علی عبد اللہ صالح کو مشورہ دیا ہے کہ وہ منصب صدارت چھوڑ دیں۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: عابد حسین