1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یمن میں عسکری کارروائی، فرقہ واریت کا بڑھتا ہوا خطرہ

عاطف بلوچ10 اپریل 2015

یمن میں فعال شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف سعودی اتحادی حملے تیسرے ہفتے میں داخل ہو گئے ہیں جبکہ دوسری طرف سعودی عرب میں قدامت پسند سنی مسلمانوں میں قوم پرستی کا جوش بڑھ رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/1F5uV
تصویر: picture-alliance/dpa

سعودی حکام کی کوشش ہے کہ یمن کے تنازعے کو شیعہ سنی فرقہ ورانہ رنگ نہ دیا جائے۔ تاہم اس کے باوجود اس خلیجی ملک میں قوم پرستی کا بڑھتا ہوا جوش، اس بحران کی فرقہ ورانہ بنیادوں پر تشریح کا سبب بن سکتا ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ یمن کے حوثی باغی، شیعہ مسلمانوں کے اندر سے ہی نکلا ہوا ایک فرقہ ہے، جو ایران کی شیعہ حکومت کی طرف مائل ہے لیکن سعودی مذہبی رہنما، صحافی اور تجزیہ کار اس تنازعے کی تشریح فرقہ ورانہ بنیادوں پر نہیں کر رہے ہیں۔

یمن میں حوثیوں پر سعودی حملوں کے شروع ہونے کے ایک روز بعد ہی مقبول سنی مذہبی رہنما شیخ ناصر العمر نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں اپنے 1.64 ملین مقلدین سے مخاطب ہوتے ہوئے شیعہ مسلمانوں کے لیے ایک ’توہین آمیز‘ اصطلاح ’استردادی‘ استعمال کی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ یمن کے بحران کے دوران سعودی عرب میں انفرادی سطح پر بھی اس طرح کا بیان دینا اس ریاست کو مشکل میں ڈال سکتا ہے کیونکہ حوثی باغی ریاض حکومت کے اس موقف کو مسترد کرتے ہیں کہ وہ سنی انتہا پسندی کے تناظر میں اپنی مقامی شیعہ روایات کے دفاع کی خاطر برسرپیکار ہیں۔

Yemen Militär Panzer
حوثی باغیوں پر سعودی اتحادی حملوں کا سلسلہ جاری ہےتصویر: Getty Images

یمن کی داخلی صورتحال اگرچہ پیچیدگی اختیار کر چکی ہے لیکن ابھی تک وہاں فرقہ ورانہ بنیادوں پر تشدد دیکھنے کو نہیں ملا ہے۔ تاہم یمنی تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ یہ تنازعہ فرقہ واریت کا رنگ اختیار کر سکتا ہے۔ ادھر سعودی عرب کے کچھ حلقے یمن میں حوثیوں کے خلاف عسکری کارروائی کو دراصل ایران کے علاقائی سطح پر بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔

مقامی میڈیا حوثی باغیوں کے خلاف سعودی اتحادی حملوں کو کامیاب قرار دے رہا ہے۔ اس دوران شہری ہلاکتوں کو رپورٹ کرنے کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ان رپورٹوں میں خلیجی ریاستوں کے رہنماؤں کے حکمرانوں کی تعریف کے پُل بھی باندھے جا رہے ہیں۔

سعودی عرب کا قومی تشخص سخت گیر وہابی نظریات سے جڑا ہوا ہے، جو شیعہ افراد کو بدعتی تصور کرتا ہے۔ وہابی نظریات کے حامل سعودی عرب کے نمایاں مذہبی رہنما اکثر اوقات کھلے عام اس شک کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں کہ آیا شیعہ حقیقی مسلمان بھی ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ نومبر میں سنی جنگجوؤں کے ہاتھوں شیعہ رہنماؤں کی ہلاکت کے بعد سعودی حکام نے اپنے اعلیٰ نمائندوں کو ان کی تدفین کی تقریب میں خصوصی طور پر روانہ کیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ برس ایک ایسے سنی مذہبی رہنما کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا، جس نے یمن میں القاعدہ کے جنگجوؤں کی طرف سے حوثیوں کے قتل کی ستائش کی تھی۔

دوسری طرف سعودی عرب کی شیعہ اقلیت الزام عائد کرتی ہے کہ انہیں ایک سوچے سمجھے طریقے سے ریاستی سطح پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ریاض حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی ہے۔