یمن دوسرا افغانستان بن سکتا ہے: یورپی یونین
18 جون 2009بدھ کے روز الجزائر میں انسدادِ دہشت گردی کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں یورپی یونین کے انسدادِ دہشت گردی کے یونٹ کے سربراہ گیل دے کیرشوو نے خدشہ ظاہر کیا کہ یمن میں انتہا پسندوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کی وجہ سے اس ملک میں عدم استحکام بڑھ رہا ہے اور یورپی یونین یمن کو افغانستان اور پاکستان کی صف میں شامل کرنے پر غور کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ گیل دے کیرشوو کا یہ بیان جمعہ کے روز تین غیر ملکی خواتین کی اغواء کے بعد ہلاکت کے پس منظر میں سامنے آیا ہے۔ اس واردات میں نامعلوم افراد نے نو غیر ملکیوں کو اغواء کرلیا تھا جن میں دو جرمن خواتین کے علاوہ ایک جرمن کنبے کے پانچ افراد بھی شامل ہیں۔
جرمن وزیرِ خارجہ فرانک والٹر اشٹائن مائر نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ہلاک ہونے والی تین خواتین میں سے دو اغواء شدہ جرمن شہری ہیں تاہم یمن میں جرمن سفارت خانہ ابھی اس کی تصدیق کر رہا ہے۔ دوسری جانب یمنی حکام نے اغواء شدہ غیر ملکی شہریوں کی بازیابی کے لئے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔
یورپی یونین کے انسدادِ دہشت گردی کے سربراہ کے مطابق یمن ایک کمزور ریاست ہے اور بین الاقوامی برادری کو چاہئے کہ وہ اس کی معاونت کرے۔
واضح رہے کہ غریب ترین عرب ملک یمن میں القاعدہ کے اثر و رسوخ کے علاوہ تیل سے مالامال جنوبی حصے میں قبائلی جھگڑے بھی عام ہیں۔ مغربی مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر یمن میں مزید عدم استحکام پیدا ہوگا تو القاعدہ اس کو اپنے فائدے کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔ یمن کو نہ صرف سعودی عرب پر حملوں کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے بلکہ وہاں سے خلیج عدن میں موجود صومالی قزاقوں کی مدد بھی کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے گیل دے کیرشوو نے کہا کہ ان کو حال ہی میں کالعدم تنظیم جماعت الدعوہ کے رہنما حافظ محمد سعید کی رہائی پر افسوس ہے۔
پاکستان کے شمال مغربی قبائلی علاقوں میں امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ان حملوں کے ذریعے القاعدہ کے متعدد رہنماؤں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ حملے پاکستان میں ناپسند کئے جاتے ہیں اور پاکستان کی خودمختاری کا احترام کیا جانا بھی ضروری ہے۔