1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یبرود میں باغی پسپا ہو گئے، دمشق حکومت

عاطف بلوچ15 مارچ 2014

شامی صدر بشار الاسد کی حامی افواج لبنانی سرحد سے محلق شامی علاقے یبرود میں داخل ہو گئی ہیں۔ یہ شہر اس علاقے میں باغیوں کا آخری اہم ٹھکانہ تصور کیا جاتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1BQAj
تصویر: Reuters/Goran Tomasevic

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے شامی فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کے روز شامی فورسز یبرود میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔ شامی فوج کے ایک اعلیٰٗ کمانڈر نے نام ظاہر کیے بغیر اے ایف پی کو بتایا، ’’شامی فوج نے جمعے کے دن یبرود میں داخل ہوتے ہوئے شہر کی مرکزی شاہراہوں کی طرف کامیاب پیشقدمی کی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ باغی اب پسپا ہوتے ہوئے جنوبی گاؤں رنکوس کی طرف فرار ہو رہے ہیں۔ اس اعلیٰ کمانڈر نے مزید کہا کہ اگر باغی اپنی مزاحمت جاری بھی رکھتے ہیں تو بھی چند دنوں میں یبرود کا کنٹرول شامی حکومت کے ہاتھ آ جائے گا۔

قبل ازیں شام کے سرکاری میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ ملکی افواج نے اسٹریٹیجک حوالے سے اہم تصور کیے جانے والے شہر یبرود کے مشرقی اور شمالی مشرقی حصوں پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔ شام کے سرکاری ٹیلی وژن کے مطابق حکومتی فوج کی اس کارروائی کے نتیجے میں ’دہشت گرد گروہوں‘ کی صفوں میں اختلافات بھی پیدا ہو گئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ دمشق حکومت صدر اسد کے خلاف برسر پیکار باغیوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہے۔

Symbolbild Syrien Gefechte
دمشق حکومت صدر اسد کے خلاف برسر پیکار باغیوں کو دہشت گرد قرار دیتی ہےتصویر: Reuters/Goran Tomasevic

ادھر شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ لبنان کے ساتھ شام کے سرحدی علاقوں میں جاری اس لڑائی میں شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے جنگجو بھی شامی افواج کی مدد کر رہے ہیں۔ آبزرویٹری نے یہ بھی کہا ہے کہ بالخصوص یبرود میں باغیوں کو پسپا کرنے میں ان جنگجوؤں نے انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ واضح رہے کہ برطانیہ میں قائم یہ گروپ شہری، طبی اور باغی عسکری ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات پر انحصار کرتا ہے۔ اس گروپ کے سربراہ رامی عبدالرحمان نے یہ بھی بتایا کہ یبرود اور الساحل کے درمیانی علاقوں میں بھی حکومتی فورسز اور باغیوں کے مابین خونریز لڑائی جاری ہے۔

ادھر القاعدہ سے منسلک جنگجو گروہ النصرہ فرنٹ نے اعتراف کیا ہے کہ العقبہ میں ایک مقام پر اسے شکست ہوئی ہے تاہم اس نے ایسی خبروں کو رد کر دیا ہے کہ باغی پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اے ایف پی نے اس جہادی گروہ کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی فورسز کے حملوں کو روکنے کے لیے مزید جنگجو اس علاقے میں پہنچ رہے ہیں۔

ماہرین کے بقول ایران کی حمایت یافتہ لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے لیے یبرود کی لڑائی انتہائی ہے۔ اس لبنانی تنظیم کی کوشش ہے کہ لبنان کے مشرقی سرحدی علاقوں اور سنی اکثریتی علاقے عرسال کے مابین مبینہ طور پر موجود جنگجوؤں کی سپلائی لائن کو ختم کر دیا جائے۔ حزب اللہ کے بقول بیروت میں خود کش کار بم حملے کرنے والے عناصر یبرود سے براستہ عرسال بیروت پہنچے تھے اور اس طرح کے مزید حملوں کے خدشات بھی موجود ہیں۔