1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیکنگ کے دنیا کو ہلا کر رکھ دینے والے چھ سب سے بڑے واقعات

5 جنوری 2019

جرمنی کے سیاسی منظر نامے کو ہیکنگ کے ایک بڑے حملے نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ اس حملے نے اراکین پارلیمان کے ذاتی ڈیٹا کو متاثر کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3B4FG
Symbolfoto Internetkriminalität
تصویر: picture-alliance/chromorange/C. Ohde

جرمنی میں حال ہی کیے گئے اس سائبر حملے کو اپنی نوعیت کا ایک بڑا حملہ قرار دیا گیا ہے۔ اس تناظر میں درج ذیل ہیں، وہ چھ سب سے بڑے سائبر حملے، جنہوں نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا:

سن 1999: ناسا اور امریکی وزارت دفاع کی ہیکنگ

ایک پندرہ سالہ لڑکے جوناتھن جیمز نے امریکی خلائی ایجنسی ناسا اور وزارت دفاع کے ڈیٹا کو ہیک کر لیا تھا۔ اس لڑکے نے  وزارت دفاع کے کئی اہم رازوں کو چرانے کے علاوہ حیاتیاتی اور کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق معلومات بھی چرا لی تھیں۔ ان کے علاوہ اس نے تین ہزار ای میلوں کے یوزر نام اور پاس ورڈز بھی ڈھونڈ نکالے تھے۔ اُس وقت جوناتھن جیمز کو کم عمر ہونے کی بنیاد پر صرف چھ ماہ کی سزا سنائی گئی تھی۔ جوناتھن جیمز نے سن 2008 میں اپنے خلاف ایک اور سائبر حملے کے الزام کے بعد خود کشی کر لی تھی۔

سن 2014: سونی کمپنی پر شمالی کوریا کا مبینہ سائبر حملہ

ہیکرز  کے ایک گروپ ’گارڈین آف پیس‘ نے سونی کمپنی کے کمپیوٹر نیٹ ورک کی فائر وال توڑ کر اُس کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ اس کا الزام شمالی کوریا پر لگایا گیا تھا لیکن اس کمیونسٹ ریاست نے اپنے اس حملے میں ملوث ہونے کی تردید کر دی تھی۔ اس تردید کے ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ سونی نیٹ ورک پر حملہ بلاشبہ ’ایک نیک عمل‘ تھا۔ اس حملے کو ایک فلم ’دی انٹرویو‘ کا جواب قرار دیا گیا تھا۔ اس فلم میں شمالی کوریائی لیڈر کم جونگ اُن کی اچانک موت دکھائی گئی تھی۔

Film "The Interview"
شمالی کوریا نے سونی نیٹ ورک پر سائبر حملے کو ایک نیکی سے تعبیر کیا تھاتصویر: picture-alliance/Zuma Press/Colombia Pictures/Entertainment Pictures

سن 2015: یوکرائنی گرڈ اسٹیشن کی ہیکنگ

یوکرائن کے دو لاکو تیس ہزار لوگ دسمبر سن 2015 میں کم از کم چھ گھنٹے تک بجلی کی فراہمی سے محروم رہے تھے۔ اس کی وجہ ہیکرز کا بجلی فراہم کرنے والی تین کمپنیوں کے کمپیوٹر نیٹ ورکس پر حملہ تھا اور اس وجہ سے بجلی کی فراہمی عبوری طور پر معطل کر دی گئی تھی۔ یوکرائن کے سلامتی کے اداروں نے اس حملے کی ذمہ داری روسی حکومت پر عائد کی تھی۔ بعض امریکی سکیورٹی کمپنیوں نے بھی اپنی طرف سے نجی تفتیش کے بعد کہا تھا کہ اس حملے کے پیچھے روس ہو سکتا تھا۔

سن 2016: امریکی ڈیموکریکٹ پارٹی کے اراکین کے ڈیٹا پر حملہ

ہیکرز نے امریکی سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی نیشنل کمیٹی کے اراکین کی ہزاروں ای میلز کو ہیکنگ کے بعد افشا کر دیا تھا۔ یہ حملہ سن 2016 کے صدارتی الیکشن کے دوران کیا گیا تھا۔ ڈیموکریٹک نیشنل کونسل اُس وقت کے صدارتی انتخابات کی نگرانی جاری رکھے ہوئے تھی۔ ان ای میلز کے افشا پر پارٹی قیادت کو شدید شرمندگی کا سامنا رہا تھا۔ امریکی وزارت انصاف نے بارہ روسی ہیکرز کو روسی خفیہ اداروں کا ایجنٹ قرار دے کر اُن پر فرد جرم بھی عائد کی تھی۔ یہ الزامات خصوصی وکیل اور تفتیش کار رابرٹ میولر نے لگائے تھے۔ میولر ابھی تک سن 2016 کے صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق مبینہ الزام کی تفتیش جاری رکھے ہوئے ہیں۔

Symbolbild Gesichtserkennung
سائبر حملوں کے خلاف مختلف ممالک نے خصوصی حفاظتی اقدامات کا سلسلہ شروع کر رکھا ہےتصویر: Imago/J. Tack

سن 2017: وانا کرائی

ایک کمپیوٹر وائرس ’وانا کرائی‘ کے حملے میں ڈیڑھ سو ممالک کے تین لاکھ کمپیوٹرز متاثر ہوئے تھے۔ اس حملے کے ذریعے کمپیوٹر استعمال کرنے والوں سے ریکارڈ کی بحالی کے لیے زر تاوان مانگا گیا تھا۔ اس حملے سے برطانیہ کی قومی ہیلتھ سروس کے علاوہ کئی بینکوں کا ڈیٹا بھی متاثر ہوا تھا۔ کوریئر سروس کمپنی ’فَیڈ ایکس‘ کے مطابق اس حملے سے اُسے لاکھوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ اس سائبر حملے کا الزام بھی شمالی کوریا پر عائد کیا گیا تھا لیکن شمالی کوریائی حکومت نے اس کی تردید کر دی تھی۔

سن 2019: جرمن پارلیمانی ارکان کے ڈیٹا پر حملہ

جرمن بنڈس ٹاگ یا پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کے اراکین کے ڈیٹا پر کیے گئے سائبر حملے سے چانسلر انگیلا میرکل بھی متاثر ہوئی ہیں۔ ہیکرز نے جرمن پارلیمنٹ کی تقریباً سبھی پارٹیوں کو ہدف بنایا، سوائے دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فارڈوئچ لینڈ (AfD) کے۔ اس ہیکنگ کے ذریعے اراکین کی مالی تفصیلات اور ذاتی گفتگو کا ریکارڈ بھی چرا لیا گیا۔ چانسلر میرکل کے ذاتی فیکس نمبر اور ای میل ایڈریس بھی سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیے گئے۔ ابھی تک جرمن حکومت نے کسی بھی فرد یا ادارے پر اس ہیکنگ کا الزام عائد نہیں کیا۔