1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہیومن مِلک بینک: شرعی فتوے اور پاکستان کے شیر خوار بچے

27 جون 2024

پاکستان میں پہلے ہیومن ملک بینک کا منصوبہ شروع ہونے سے پہلے ہی معطل ہوگیا۔ ایک فتویٰ نے اسے غیر شرعی قرار دے دیا۔ لیکن مفتی صاحب کو کون بتائے کہ ملک میں سالانہ ہزاروں بچے غذائی قلت کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4hZCd
DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
تصویر: privat

ہیومن ملک بینک اور ارلی چائلڈ ہڈ سینٹر کے قیام کا مقصد ان نوزائیدہ بچوں کو صحت مند دودھ فراہم کرنا ہے، جنہیں اپنی ماں کا دودھ نہیں مل سکتا۔ یہ بینک صحت مند ماؤں سے دودھ جمع کرتا ہے، اسے محفوظ اور جراثیم سے پاک حالت میں رکھتا ہے اور ضرورت مند بچوں تک پہنچاتا ہے۔

اس بینک کے قیام کے لیے دارالعلوم کراچی سے 24 دسمبر 2023ء کو ایک فتویٰ حاصل کیا گیا تھا، جس کے تحت ہیومن ملک بینک کو شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے کام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ فتوے میں یہ شامل تھا کہ دودھ فراہم کرنے والی ماؤں کی مکمل معلومات رجسٹر کی جائیں گی اور ان بچوں کی ماؤں کے ساتھ شیئر کی جائیں گی، جنہیں وہ دودھ مہیا کیا جا رہا ہے تاکہ رشتہ داری کا ریکارڈ برقرار رکھا جا سکے۔ انسانی دودھ کے بینک کی طرف سے کسی بھی قوانین کی خلاف ورزی کی کوئی شکایت نہیں آئی تھی۔ تاہم، دارالعلوم کراچی نے حال ہی میں ایک اور فتویٰ جاری کیا، جس میں مِلک بینک کی مخالفت کی گئی اور اس کا کام روک دیا گیا۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ ان سب قوانین پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ 

یہ مسئلہ نیا نہیں ہے۔ مسلم دنیا میں ماضی میں بھی مِلک بینکوں کے قیام کے حوالے سے اختلافات رہے ہیں۔ 1983ء میں کویت میں اسلامک آرگنائزیشن فار میڈیکل سائنسز نے اسلام اور ہیومن ریپروڈکشن کے موضوع پر ایک سیشن منعقد کرایا تھا۔ اس سیشن میں بہت سے فقہاء نے مسلم دنیا میں مِلک بینکوں کے قیام کی مخالفت کی تھی کیونکہ ڈونر کا اپنا نام ظاہر نہ کرنا اور دودھ کا بےنام ہونا دودھ کی رشتہ داری کے اسلامی اصولوں کے تحت ایک مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔

 تاہم، 1983ء کے سیشن نے کچھ سخت شرائط فراہم کی تھیں، جن کے تحت ڈونر دودھ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان شرائط میں یہ شامل تھا کہ ہر دودھ کی بوتل پر ڈونیٹ کرنے والے کا نام درج ہونا چاہیے اور ایک تفصیلی رجسٹری میں ڈونیٹ کرنے والی خاتون اور اس کے دودھ کے تمام وصول کنندگان کی دستاویز ہونی چاہییں۔ یہ معلومات عطیہ دہندگان اور وصول کنندگان کے درمیان شیئر کرنا لازمی قرار دیا گیا تاکہ ان خاندانوں کے افراد کے درمیان شادی جیسے کسی رشتے سے بچا جا سکے۔

پاکستان کا یہ پہلا ہیومن مِلک بینک اور ارلی چائلڈ ہڈ سینٹر سماجی اور دینی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے بعد قائم کیا گیا تھا تاکہ اس اہم اقدام کو مؤثر طریقے سے نافذ کیا جا سکے۔ لیکن دارالعلوم کراچی کے نئے فتوے نے اس اقدام کو روک دیا، جو اس کی کامیابی کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بن گیا۔

علاوہ ازیں، 2004ء میں، یورپی کونسل برائے فتوٰی اور تحقیق (ECFR) نے کہا تھا کہ مغربی ممالک میں مسلمان اقلیتوں کے لیے ملِک بینکوں کا استعمال جائز ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ مغرب میں مِلک بینکوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مِلک بینک سخت حفاظتی اقدامات کرتے ہیں تاکہ بیماریوں کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ تاہم، انہوں نے ریکارڈ کی تفصیل نہ ہونے پر کچھ شکوک کا اظہار بھی کیا۔ مجموعی طور پر، تاہم مِلک بینک سے دودھ کے حصول کی اجازت دی گئی تھی۔

پاکستان کے موجودہ حالات میں جہاں بچوں کی آدھی آبادی غذائی قلت کا شکار ہو، ایسے حساس مسائل پر سماجی یکجہتی لازمی ہے۔ پاکستان میں ہیومن مِلک بینک اور ارلی چائلڈ ہڈ سینٹر جیسے اقدامات ایک اہم شروعات ہیں، جو ضرورت مند بچوں کو صحت مند خوراک کی فراہمی میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔ سماجی مسائل کے حل کے لیے ہمیں ہر بچے کے صحت مند غذا کے حق کو یقینی بنانا ہوگا۔ اس کے لیے سماجی طور پر بھی ہمیں اقدامات اٹھانے ہوں گے، جو اس مسئلے کے حل میں مدد فراہم کر سکیں۔

 

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

DW Urdu Korrespondentin Saba Hussain
صبا حسین نوشہرو فیروز، سندھ سے ایک فری لانس بلاگر ہیں۔sabahussain26