ہیروں کی تیاری لیبارٹری میں، اب اور بھی آسان
9 جون 2024ہیرا ہر دور میں انسانی معاشرے کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔ انتہائی مہنگا اور عام افراد کی پہنچ سے باہر ہونے کے باوجود اس کی اہمیت آج بھی برقرار ہے۔ قدرتی ہیرا زمین کی اوپری سطح اور کرسٹ کے درمیان مینٹل میں 1500 سینٹی گریڈ درجۂ حرارت اور 5 سے 6 گیگا پاسکل کے انتہائی دباؤ پر پگھلی ہوئی کاربن کے کیمیائی تعامل سے بنتا ہے۔
لندن میں کوہ نور دوبارہ عوامی نمائش کے لیے رکھ دیا گیا
برطانوی شاہی خاندان سے ہیروں کی واپسی کا مطالبہ
دنیا بھر میں جواہرات کی تیاری میں ہیرے کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باعث سائنسدان ایک طویل عرصے سے مصنوعی ہیرے کی لیبارٹری میں تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ سب سے پہلے 1955 میں جنرل الیکٹرک نامی کمپنی نے ایک ایسا آلہ تیار کیا تھا جس میں 1600 سینٹی گریڈ تک بلند درجۂ حرارت اور 7 گیگا پاسکل دباؤ کے ساتھ پگھلے ہوئی آئرن سلفائیڈ سے ہیرے تیار کیے جا سکتے تھے۔
گذشتہ 70 سال سے دنیا بھر میں اسی طریقے سے ہیرے تیار کیے جا رہے ہیں۔ مگر اس میں ایک بڑی پیچید گی مصنوعی طریقے سے انتہائی بلند درجۂ حرارت اور دباؤ پیدا کرنا ہے۔ چونکہ اس عمل میں چھوٹے سائز کے ہیرے تیار کرنے میں کئی ہفتے لگتے ہیں لہذا اتنا زیادہ دباؤ اور درجۂ حرارت برقرار رکھنا بھی دشوار ہوتا ہے۔
نئی تحقیق کیا ہے؟
جنوبی کوریا کے انسٹی ٹیوٹ آف بیسک سائنسز سے وابستہ سائنسدانوں کی ٹیم نے ایک نئی تکنیک استعمال کرتے ہوئے عام دباؤ اور درجۂ حرارت پر ہیرے تیار کیے ہیں۔ اس عمل کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کے لئے سٹارٹر جیم یا پگھلی ہوئی دھات کی ضرورت نہیں ہوتی اور تیاری میں محض 15 منٹ لگتے ہیں۔
اپریل 2024 میں نیچر سائنس جنرل میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مرکزی مصنف روڈنی رووف (Rodney Ruoff) ہیں جو انسٹی ٹیوٹ آف بیسک سائنسز جنوبی کوریا سے وابستہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا بھر میں 99 فیصد مصنوعی ہیرے انتہائی دباؤ اور درجۂ حرارت والے طریقے سے تیار کیے جا رہے ہیں۔ جس میں وقت بھی زیادہ لگتا ہے اور عمل میں کئی پیچیدگیاں بھی حائل ہیں۔
روڈنی رووف بتاتے ہیں کہ نئی تحقیق میں انہوں نے اپنی ٹیم کی معاونت سے ان پیچیدگیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ جس سے لیبارٹری میں محض پندرہ منٹ میں نہایت چھوٹے سائز کے ہیرے تیار کیے جا سکتے ہیں جنہیں ''مائیکرو ڈائمنڈ‘‘ کہا جاتا ہے۔
روڈنی رووف مزید بتاتے ہیں کہ وہ کئی عشروں سے ہیروں کی تیاری کے آسان طریقۂ کار پرغور و فکر کر رہے تھے۔ پھر اپنی ٹیم سے ساتھ عملی قدم اٹھاتے ہوئے انہوں نے گریفائٹ سے بنے ایک خاص ویسل میں انتہائی گرم گیلیم کو تھوڑی مقدار میں سیلیکون کے ساتھ تعامل کیا۔
روڈنی روف کے مطابق اگرچہ گیلیم ایک غیر متعلقہ عنصر لگتا ہے مگر پچھلی کچھ تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ میتھین سے گریفین کی تیاری کے عمل کو تیز تر کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہیرے کی طرح گریفین بھی خالص کاربن کی ایک شکل ہے لیکن ہیرے کی طرح آٹھ کونوں کی قلم کے بجائے اس کے ایٹم ایک تہہ کی صورت میں جڑے ہوتے ہیں۔
اس ویسل کو ایک چیمبر میں رکھا جاتا ہے جسے اسی تجربے کے لیے خصوصی طور پر تیار کیا گیا ہے۔ نو لیٹر کے اس خاص چیمبر کو اس تحقیق کے شریک مصنف وون کیونگ سیونگ (Won Kyung Seong)نے تیار کیا ہے جو انسٹی ٹیوٹ آف بیسک سائنسز جنوبی کوریا سے ہی وابستہ ہیں۔ اس چیمبر میں سطح سمندر کے دباؤ پر کاربن ایٹموں پر مشتمل انتہائی گرم میتھین گیس کو دھار سے گزارا جاتا ہے۔
یہ چیمبر اس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ اسے تجربے کے لیے محض پندرہ منٹ میں تیار کیا جاسکتا ہے۔ جس کے بعد سائنسدان اس میں مختلف دھاتوں اور گیسوں کی مخصوص مقدار شامل کر کے منٹوں میں مائیکرو ڈائیمنڈ تیار کر سکتے ہیں۔
اس تحقیق کے مرکزی مصنف روڈنی رووف کہتے ہیں کہ اسی مکینزم پر مزید کام کرتے ہوئے ان کی ٹیم نے سیلیکون کی تھوڑی سی مقدار کے ساتھ گیلیم، نکل اور آئرن وغیرہ کے مکسچر کے ساتھ تجربات کیے۔ ان سے تقریبا دو گھنٹے میں ڈائیمنڈ کی پوری فلم بھی تیار کی گئی۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس فلم میں ہیرے مکمل طور پر خالص تھے لیکن اس میں کچھ سلیکون ایٹم بھی شامل تھے۔
کیا یہ طریقہ ہیرے کی کمرشل تیاری کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے؟
روڈنی رووف بتاتے ہیں کہ ان کی ٹیم نے اس طریقے سے جو ہیرے تیار کیے ہیں وہ سائز میں بہت چھوٹے ہیں۔ ان کے مطابق ان میں جو سب سے بڑے سائز کا ہیرا ہے وہ بھی مصنوعی طریقے سے بنائے گئے ہیروں سے ہزاروں گنا چھوٹا ہے۔ لہذا فی الحال ان ہیروں کو زیورات کی تیاری کے لیے کمرشلی استعمال کرنا ممکن نہیں ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم ان ہیروں کے ڈرلنگ اور پالش میں استعمال پر غور کررہی ہے مگر ابھی تک اس حوالے سے کوئی واضح صورتحال سامنے نہیں آئی۔ان کے مطابق چونکہ اس تکنیک کا ایک "پلس پوائنٹ" انتہائی کم دباؤ ہے لہذا اگلے چند برسوں میں مزید تحقیق سے ان ہیروں کا کمرشل استعمال بھی ممکن ہو گا۔