ہولناک دہشت گردی کے بعد فرانس کو یورپی فوجی مدد درکار
18 نومبر 2015یورپی یونین کی امور خارجہ کی سربراہ فیدریکا موگرینی کا برسلز منعقدہ اجلاس کے بعد کہنا تھا کہ ’یہ ایک غیر معمولی طور پر جذباتی اجتماع تھا جبکہ عام طور پر وزرائے دفاع کے اجلاس میں ایسا دیکھنے میں نہیں آتا‘۔ اس کی وجہ واضح ہے: موگرینی نے پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کو اپنی تہذیب کی جڑوں پر کیے جانے والے ایک وار کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ یورپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنے تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ عرب ممالک کی جانب سے بھی بھرپور تائید کی توقع رکھتا ہے: ’’یہ دن فرانس اور پورے یورپ کے لیے انتہائی افسردہ کر دینے والا دن تھا لیکن ہم دکھائیں گے کہ ہم شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔‘‘
اشتراکِ عمل کا غیر معمولی انداز
یورپی ممالک کی طرف سے یک جہتی کا یہ اظہار طویل عرصے سے یورپی معاملات پر نظر رکھنے والوں کے لیے بھی حیران کن ہے۔ فرانس نے یورپی یونین کے معاہدوں کی ایک قدرے نامعلوم شِق نمبر 42.7 کا حوالہ دے کر یورپی ساتھی ملکوں کی مدد طلب کی ہے۔ اس شِق کی رُو سے اگر یونین کے کسی ایک رکن ملک کی سرزمین کسی مسلح حملے کا نشانہ بنتی ہے تو دیگر رکن ریاستیں اقوام متحدہ کےمنشور کے آرٹیکل 51 کے تحت اُس کی مدد کی پابند ہوں گی۔
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یورپی یونین کوئی مشترکہ فوجی مشن شروع کرے گی بلکہ ریاستیں دو طرفہ بنیادوں پر فرانس کی سکیورٹی فورسز کا بوجھ بانٹنے کے لیے ہر ممکن طریقے سے مدد فراہم کریں گی۔
فرانسیسی ساتھی یورپی ممالک سے کیا چاہتے ہیں؟
فرانسیسی وزیر دفاع ایو لے دریاں کے مطابق اُن کے ملک کو سب سے زیادہ تو ساتھی ممالک کی ہمدردی درکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ فرانس کس ٹھوس مدد کا طالب ہے؟ یقیناً اُسے خفیہ اداروں کے درمیان بہتر روابط اور سکیورٹی کے شعبے میں عملے کی صورت میں مدد سے کچھ زیادہ ہی چاہیے۔
لے دریاں کے مطابق، ’فرانس اکیلے سب کچھ نہیں کر سکتا‘۔ اس کا مطلب شام، عراق یا دیگر مقامات پر آپریشنز میں فوجی مدد ہو سکتا ہے۔
درحقیقت فرانس افریقہ اور مشرقِ وُسطیٰ کے بہت سے ملکوں میں متعدد فوجی آپریشنز میں حصہ لے رہا ہے اور اس حوالے سے اُس پر پڑنے والا دباؤ اب اُس کی برداشت کی آخری حدوں تک پہنچ چکا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ اب اُسے ملک کے اندر حساس مقامات کی نگرانی کے لیے تین ہزار اضافی فوجی درکار ہیں۔
آخر نیٹو کی طرف سے مدد کیوں نہیں؟
اس سوال کے جواب میں کہ آخر پیرس حکومت نے نیٹو کی مدد کیوں طلب نہیں کی، جیسے کہ امریکا نے گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد کی تھی، فیدریکا موگرینی کہتی ہیں کہ ’یہ خاص طور پر ایک سیاسی بیان ہے، ہمارے پاس مشترکہ یورپی دفاع کی سہولت موجود ہے اور اُسے فعال کیا جا سکتا ہے‘۔
فرانسیسی حکومت جرمنی سے بھی مدد کی طلب گار ہے حالانکہ جرمنی اب تک مشرقِ وُسطیٰ میں کسی بھی طرح کی فوجی مداخلت سے انکار کرتا چلا آ رہا ہے۔ پھر بھی وفاقی جرمن وزیر دفاع اُرزولا فان ڈیئر لاین نے اپنے فرانسیسی ہم منصب کو جرمنی کی تائید و حمایت کا یقین دلایا اور افریقی ریاست مالی میں فرانسیسی فوج کا ہاتھ بٹانے کی پیشکش کی۔ بتایا گیا ہے کہ فرانسیسی حکومت کرد جنگجوؤں کے معاملے میں جرمن تجربات سے بھی استفادہ کرنا چاہتی ہے۔