1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہوشیار! یہ سرکاری میڈیا کی خبر ہے

5 جون 2020

سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کی انتظامیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ چینی، روسی اور ایرانی سرکاری میڈیا کی خبروں کو نشان زدہ کر رہی ہے، تاکہ صارفین ہوشیار رہیں۔

https://p.dw.com/p/3dIXz
USA Kalifornien Schild am Facebook Hauptquartier
تصویر: Getty Images/AFP/J. Edelson

فیس بک کے مطابق روسی سرکاری میڈیا ادارے سپُتنِک، ایرانی پریس ٹی وی اور چینی شہنوا نیوز کی خبروں کے ساتھ فیس بک لکھ رہا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر حکومتی اثرورسوخ سے متاثرہ خبریں ہو سکتی ہیں۔

بھارتی سرکاری ریڈیو سے بلوچی زبان میں خبریں نشر کرنے کا فیصلہ

کیا مولانا طارق جمیل ایک نئی مقدس گائے ہیں؟

اکتوبر 2019 میں فیس بک نے اعلان کیا تھا کہ وہ سرکاری میڈیا کی خبروں کو لیبل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس منصوبے پر تاہم چار جون سے عمل درآمد شروع ہو گیا ہے۔

فیس بک کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ''ہم صارفین کو ان پبلشرز سے متعلق زیادہ شفافیت مہیا کر رہے ہیں، جو حکومتی تنظیموں اور اسٹریٹیجک حمایت کے تابع ہو سکتے ہیں۔‘‘

بتایا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر فیس بک ایسے دو سو پیجز پر یہ لیبل لگا رہی ہے۔ روسی نشریاتی ادارے سپُتنِک کے فیس بک پیج  کے ٹرانسپیریسی کے خانے میں لکھا دیکھا جا سکتا ہے، ''اس ناشر کا ادارتی کنٹرول جزوی یا کلی طور پر حکومت کے تابع ہو سکتا ہے۔ اس میں کئی عناصر شامل ہو سکتے ہیں، جو فقط سرمایے کی فراہمی، اسٹرکچر اور صحافتی معیارات تک محدود نہیں۔‘‘

عام انتخابات، سوشل میڈیا اور جھوٹی خبریں

ٹھیک یہی پیغام چینی خبر رساں ادارے شہنوا کے فیس بک پیج پر بھی درج ہے۔ تاہم روئٹرز سے بات چیت میں فیس بک کے سائبر سکیورٹی سے متعلق شعبے کے سربراہ نیتھنیل گلیشیئر نے کہا کہ فیس بک کسی امریکی صحافتی ادارے پر ایسا کوئی لیبل اس لیے نہیں لگا رہی کیوں کہ امریکی حکومتی نشریاتی اداروں میں ابھی صحافتی خودمختاری موجود ہے۔ گلیشیئر نے یہ بھی بتایا کہ فیس بک سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں سے جڑے نشریاتی اداروں کے پیجز پر ابھی ایسا کوئی پیغام چسپاں نہیں کر رہی ہے۔

فیس بک کے مطابق اس اقدام سے قبل سماجی رابطے کی اس ویب سائٹ نے دنیا بھر میں میڈیا، گورننس اور انسانی حقوق سے متعلق ماہرین کی رائے سے مشاورت کی۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ ان تمام ماہرین کی تجاویز کے تحت یہ دیکھا گیا کہ کس طرح مختلف حکومتیں اپنے زیر اثر میڈیا کے ادارتی انتظام کو کنٹرول کرتی ہیں۔