1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہمسایہ ممالک کے فوجی سربراہان افغانستان میں

13 فروری 2018

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں متعدد ہمسایہ ممالک کے فوجی سربراہاں پہنچ گئے ہیں۔ اس کانفرنس میں پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ بھی شریک ہیں۔

https://p.dw.com/p/2sZtS
Pakistan Armee chef Qamar Javed Bajwa
تصویر: picture-alliance/AA/ISPR

نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اس خصوصی اجلاس کا مقصد خطے میں دہشت گردی سے نمٹنے کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لینا ہے۔  اس کے علاوہ فوجی سربراہان منشیات سے متعلق بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کا بھی جائزہ لیں گے۔ افغانستان میں گزشتہ برس ریکارڈ حد تک افیون کی پیدوار ہوئی ہے، جس سے خطے میں اس کی تجارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔افغانستان دنیا میں افیون پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور افیون کو ہی ہیروئن کی تیاری میں استعمال کیا جاتا ہے۔

افغانستان میں چینی فوجی اڈے کا مبینہ پلان، اثرات کیا ہوں گے؟

منگل کے روز کابل میں ہونے والے اس اجلاس میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور امریکا کے نمائندے بھی شریک ہوں گے۔

افغان وزات دفاع کے ترجمان دولت وزیری کے مطابق اس کانفرنس میں ازبکستان اور قزاقستان کے فوجی سربراہان بھی شرکت کر رہے ہیں۔ اس کانفرنس میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل پاکستانی فوج کے سربراہ کی شرکت ہے کیوں کہ افغانستان اور امریکا دونوں ہی اس وقت پاکستان پر شدید دباؤ ڈالے ہوئے ہیں۔ دونوں ممالک کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ان کے خلاف لڑنے والی طالبان قوتوں کو درپردہ اسلام آباد کی حمایت حاصل ہے۔ پاکستانی حکام اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ وہ عسکریت پسندوں کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہیں۔

روس اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی قربت

پاکستان کا مزید کہنا ہے کہ طالبان عسکریت پسند افغانستان میں پناہ لیے ہوئے ہیں اور افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے وہ پاکستان کے اندر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔

اس وقت واشنگٹن حکومت نے پاکستان کی فوجی امداد بند کر رکھی ہے تاکہ پاکستان کو مجبور کیا جا سکے کہ وہ افغانستان میں لڑنے والے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے اور ان کی مبینہ حمایت ترک کر دے۔ تاہم امریکا کا یہ بھی کہنا ہے کہ افغان جنگ کے کسی بھی حل کے لیے پاکستان کا مرکزی کردار ہے۔

 نیوز ایجنسی اے پی کا مزید یہ بھی کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے حالیہ حملوں میں اضافے کے باوجود کابل حکومت طالبان کے ساتھ پس پردہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔