1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

'ہمارے خوابوں کا گھر ہماری آنکھوں کے سامنے بہہ گیا‘

27 اگست 2022

پاکستان کے شمال میں دریاؤں کے قریب رہنے والے ہزاروں افراد کو ہفتے کے روز اپنے گھر خالی کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ ملک میں جاری مون سون کی تباہ کن بارشوں سے ہلاکتوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/4G8Mi
Pakistan Überschwemmungen in weiten Teilen des Landes
تصویر: Amer Hussain/REUTERS

صوبے خیبر پختونخوا میں پہاڑوں اور دریاؤں سے گھری کئی وادیوں میں سیلابی ریلوں نے تباہیمچائی۔ اب تک 150 کمروں پر مشتمل ایک ہوٹل سمیت متعدد عمارتیں سیلاب کی نذر ہو چکی ہیں۔

چارسدہ میں مچھلی فارموں کے مالک 23 سالہ جنید خان نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم نے برسوں کی محنت سے جو گھر تعمیر کیا وہ ہماری آنکھوں کے سامنے ڈوب گیا۔ ہم سڑک کے کنارے بیٹھے اپنے خوابوں کے گھر کو ڈوبتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔‘‘

سالانہ مون سون پورے برصغیر میں فصلوں کی آبپاشی اور جھیلوں اور ڈیموں کے بھرے جانے کے لیے ضروری ہے لیکن ہر سال یہ موسم اپنے ساتھ تباہی کی لہر بھی لے آتا ہے۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ رواں سال مون سون کے سیلابوں سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، یعنی ہر سات میں سے ایک پاکستانی سیلاب سے متاثر ہوا ہے۔ تقریباﹰ دس لاکھ گھر مکمل طور پر تباہ یا بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

زندگی بھر کی جمع پونجی سیلاب بہا لے جائے تو؟

ہفتے کے روز حکام نے خطرے سے دوچار علاقوں میں ہزاروں رہائشیوں کو اپنے گھروں کو خالی کرنے کا حکم دے دیا۔

ریسکیو 1122 ایمرجنسی سروس کے ترجمان بلال فیضی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ابتدائی طور پر کچھ لوگوں نے جانے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب پانی کی سطح میں اضافہ ہوا تو انہوں نے رضامندی ظاہر کر دی۔

حکام کا کہنا ہے کہ اس سال آنے والے سیلاب کا موازنہ 2010 کی صورت حال سے کیا جا سکتا ہے جب پاکستان میں تاریخ کا بدترین سیلاب آیا تھا۔ اس وقت 2000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے اور ملک کا تقریبا پانچواں حصہ زیر آب آ گیا تھا۔

ایک کسان شاہ فیصل نے اپنی اہلیہ اور دو بیٹیوں کے ساتھ چارسدہ میں ایک سڑک کے کنارے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح انہوں نے دریا کے کنارے واقع اپنے گھر کو دریا میں ڈوبتے ہوئے دیکھا۔

سوات کے علاقے جندی میں بپھرا ہوا دریائے کابل دریائے سندھ میں شامل ہونے سے پہلے آبادی سے گزرتا ہے۔ فیصل نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم اپنی جان بچا کر وہاں سے نکلے۔‘‘

پاکستان میں حکام نے اس تباہی کا الزام ماحولیاتی تبدیلیوں پر عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان دنیا کے دیگر ممالک کے غیر ذمہ دارانہ ماحولیاتی طریقوں کے نتائج کو غیر منصفانہ طور پر برداشت کر رہا ہے۔ پاکستان گلوبل کلائمیٹ رسک انڈکس میں آٹھویں نمبر پر ہے۔

تاہم پاکستانی حکام بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کے کسی حد تک ضرور ذمہ دار ہیں۔ بدعنوانی، ناقص منصوبہ بندی اور مقامی ضوابط کی خلاف ورزیوں کے باعث ایسے مقامات پر بھی ہزاروں عمارتیں تعمیر کی گئیں، جہاں سیلاب آنے کا شدید خطرہ ہو سکتا ہے۔

ملک بھر میں تباہی، ہنگامی صورت حال کا اعلان

سیلاب کی بڑے پیمانے پر تباہ کاریوں کے بعد حکومت نے ہنگامی صورتحال کا اعلان کر دیا ہے۔ امدادی سرگرمیوں کے لیے ملکی فوج کو بھی متحرک کر دیا گیا ہے۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے مطابق جون میں مون سون شروع ہونے کے بعد سے اب تک 20 لاکھ ایکڑ سے زائد رقبے پر کاشت کردہ فصلوں کا صفایا ہو چکا ہے۔ اب تک 3100 کلومیٹر طویل سڑکیں بھی تباہ ہو چکی ہیں اور 149 پل بھی سیلابی ریلوں کے باعث بہہ چکے ہیں۔

سوات سے ایک ہزار کلومیٹر جنوب میں صوبہ سندھ کے شہر سکھر میں بھی سیلاب کے باعث میدانی علاقے زیر آب آ چکے ہیں۔ مزید سیلابی ریلوں کے خدشات کے باعث ہزاروں افراد بلند مقامات پر پناہ لیے ہوئے ہیں۔

سیلاب متاثرین حکومتی رویے سے نالاں

سندھ کے کئی علاقے سیلاب سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اسی طرح جنوبی پنجاب کے کئی شہر بھی سیلاب کی زد میں ہیں۔

بلوچستان کے کئی شہروں میں بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا سلسلہ مسلسل کئی ہفتوں سے جاری ہے اور سڑکیں بہہ جانے کے باعث متاثرہ علاقوں کا زمینی رابطہ بھی منقطع ہو چکا ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں بھی اب تک سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کے باعث قریب تین درجن افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

بین الاقوامی امداد کی اپیل

پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعے کے روز ہی سیلاب کے تباہ کن نقصانات سے نمٹنے اور امدادی سرگرمیوں کے لیے بین الاقوامی امداد کی درخواست کی تھی۔ ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں انہوں نے لکھا، ''بارشوں کے جاری سلسلے نے ملک بھر میں تباہی مچا دی ہے۔‘‘

پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان قاسم افتخار کے مطابق شہباز شریف کی بین الاقوامی امداد کی اپیل کے جواب میں اقوام متحدہ نے عطیات کے لیے 160 ملین ڈالر کی فوری اپیل کا منصوبہ بنایا ہے۔ انہوں نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ اپیل کا آغاز 30 اگست سے کیا جائے گا۔

دیگر حکومتی وزراء نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں اور مخیر شہریوں سے بھی مالی امداد کی اپیل کی ہے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے بھی پشاور کا جلسہ ملتوی کرتے ہوئے جماعت کے قائدین کو ہدایت کی ہے کہ وہ سیلاب کے متاثرین کی مدد کریں۔

سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے ٹیلیتھون کے ذریعے سیلاب متاثرین کے لیے چندہ جمع کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

ش ح / م م (اے ایف پی، اے پی)