1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

ہفتے میں چار دن کام، تین دن آرام: کتنا فائدہ مند ہے؟

19 فروری 2022

بیلجیم میں ملازمین کو ہفتے میں چار دن کام کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ کئی دیگر ممالک کے ادارے بھی اس راہ پر چلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہفتے میں صرف چار دن کام کرنے کا تجربہ کیوں مقبول ہو رہا ہے اور اس کے فوائد کیا ہیں؟

https://p.dw.com/p/47HNx
تصویر: Zeljko Dangubic/Westend61/picture alliance

پاکستان سمیت دنیا کے زیادہ تر ممالک میں سرکاری و نجی اداروں میں ہفتے میں پانچ دن کام کیا جاتا ہے۔ لیکن اگر اتنی ہی تنخواہ میں پانچ کی بجائے چار دن کام کیا جائے اور لوگ باقی تین دن اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزاریں تو کیا ان کی کارکردگی بہتر ہو گی یا خراب؟

چار دن کام کرنے کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ یہ طریقہ اختیار کرنے سے ملازمین کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور اداروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ کئی یورپی ممالک میں اس طریقہ کار کی مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن عملی طور پر یہ راہ اختیار کرنے میں بیلجیم سرفہرست ہے۔

بیلجیم میں اب سے ملازمین کو اختیار ہو گا کہ وہ خود طے کریں کہ آیا وہ ہفتے میں چار روز کام کرنا چاہتے ہیں پانچ روز۔ چار دن کام کرنے کی صورت میں انہیں یومیہ زیادہ وقت تک کام کرنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ وہ خود ہی یہ فیصلہ بھی کر سکیں گے کہ انہیں کون سے چار دن کام کرنا ہے۔

بیلجیم کے وزیر اعظم الیکزانڈر دے کرو نے امید ظاہر کی ہے کہ اس ماڈل کو اختیار کرنے سے شہری اپنی دفتری اور نجی زندگی میں توازن قائم کر سکیں گے۔

لیکن ایسے ماڈل کا فائدہ کیا ہے اور نقصانات کیا ہیں؟ ڈی ڈبلیو نے جائزہ لیا کہ اب تک یہ تجربہ کن ممالک میں کیا جا چکا ہے اور اس کے نتائج کیسے رہے۔

آئس لینڈ: تنخواہ پوری لیکن کام کا دورانیہ کم

آئس لینڈ میں بھی بیلجیم کا طرح اس ماڈل کا تجربہ سن 2015 اور سن 2019 کے درمیان کیا گیا۔ تاہم اس ملک نے ہفتے میں 40 گھنٹے کام کی بجائے دورانیہ بھی کم کے ہفتے میں 35 یا 36 گھنٹوں تک محدود کر دیا تھا، تاہم تنخواہ اتنی ہی رکھی گئی تھی۔

تجرباتی بنیادوں پر ڈھائی ہزار ملازمین نے اس ماڈل میں شمولیت اختیار کی۔ تجربے کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ شرکا کی صحت میں نمایاں بہتری رونما ہوئی اور ان کی کارکردگی بھی بہتر ہوئی۔

کامیاب تجربے کے بعد اس ماڈل کو ملک بھر میں متعارف کرا دیا گیا اور اب آئس لینڈ کے 86 فیصد ملازمین ہفتے میں چار دن کام کرتے ہیں اور وہ بھی 40 نہیں بلکہ 36 گھنٹے۔

سکاٹ لینڈ اور ویلز: ایک مہنگا تجربہ

سکاٹ لینڈ میں بھی ان دنوں ہفتے میں چار دن کام کرنے کا تجربہ جاری ہے۔ اس تجربے کے لیے حکومت کمپنیوں کو قریب 14 ملین ڈالر کی مالی معاونت بھی فراہم کر رہی ہے۔

ویلز کی حکومت بھی یہی راہ اختیار کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ابتدا میں 'چار دن کا ہفتہ‘ صرف سرکاری ملازموں کے لیے متعارف کرایا جائے گا۔

فن لینڈ سے 'فیک نیوز‘

عالمی میڈیا میں فن لینڈ کے بارے میں بھی کچھ عرصہ پہلے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ وہاں بھی ہفتے میں چار روز کام کا ماڈل متعارف کرایا جا رہا ہے۔

تاہم ایسی خبریں اس وقت 'فیک نیوز‘ ثابت ہوئی جب فن لینڈ کی حکومت نے بتایا کہ وہ فی الوقت یہ ماڈل اختیار کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی۔

اسپین میں ماڈل کا تجربہ ہی سست روی کا شکار

اسپین میں بائیں بازو کی سیاسی جماعت کی درخواست پر اس ماڈل کا تجربہ کیا جانا ہے۔ تجرباتی بنیادوں پر قریب 200 چھوٹے اور درمیانے درجے کے اداروں کے چھ ہزار ملازمین کو اس کام کے لیے منتخب کیا جانا تھا۔

اس ماڈل کا تجربہ گزشتہ برس شروع کیا جانا تھا تاہم ابھی تک اس کا آغاز نہین ہو پایا۔

جرمنی اور دیگر ممالک

جرمنی میں اب تک چھوٹی اسٹارٹ اپ کمپنیوں نے ہی چار دن کام کرنے کا تجربہ کیا ہے۔ تاہم جاپان میں کئی بڑی کمپنیاں بھی چار دن کام کروا کر اس ماڈل کی افادیت کا جائزہ لے رہی ہیں۔

مائیکرو سافٹ نے بھی تجرباتی بنیادوں پر مہینے کے آخری ہفتے صرف تین دن کام کرنے کا ماڈل متعارف کرایا ہے۔

ملٹی نیشنل کمپنی یونی لیور نے نیوزی لینڈ میں 'چار روزہ ہفتے‘ کا تجربہ شروع کر رکھا ہے۔ اطلاعات کے مطابق اور یہ تجربہ کارآمد ثابت ہوا تو کمپنی اسے دوسرے ممالک میں بھی متعارف کرا دے گی۔

کیا اس ماڈل کا تجربہ پاکستان جیسے ممالک میں بھی کیا جانا چاہیے؟ آپ کیا کہتے ہیں؟

اسٹیفنی ہوپر (ش ح/ ک م)