1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ہزارہا تارکین وطن کی سخت سردی میں ترک یونانی سرحد پر شب بسری

1 مارچ 2020

یورپی یونین میں داخلے کے خواہش مند ہزارہا تارکین وطن نے سخت سردی میں گزشتہ رات ترک یونانی سرحدی علاقے میں کھلے آسمان کے نیچے بسر کی۔ ان تارکین وطن میں بالغ مردوں کے علاوہ چھوٹے بچوں والے بہت سے خاندان بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/3YgEg
تصویر: picture-alliance/AP Photo/E. Gurel

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت (آئی او ایم) کے کارکنوں کے مطابق یورپ پہنچنے اور وہاں اپنے لیے پناہ کے خواہش مند ان غیر یورپی تارکین وطن  کی تعداد کم از کم بھی 13 ہزار ہے۔ وہ اس وقت ترکی کے یونان اور بلغاریہ کے ساتھ 212 کلومیٹر طویل زمینی سرحدی علاقے میں مختلف مقامات پر اس نیت سے عارضی طور پر قیام کیے ہوئے ہیں کہ کسی طرح یونان یا بلغاریہ اور یوں یورپی یونین میں داخل ہو جائیں۔

آئی او ایم کی ترکی میں امدادی سرگرمیوں کے نگران اہلکار لادفو گویلاوا نے بتایا، ''یہ تارکین وطن اس وقت بہت سے گروپوں کی صورت میں ترکی اور یونان کے درمیان سرحدی علاقے میں مختلف قصبوں اور مقامات پر اس امید میں رکے ہوئے ہیں کہ موقع ملنے پر سرحد پار کر کے یونان میں داخل ہو سکیں۔ چند مقامات پر تو تارکین وطن کے ان گروپوں میں شامل افراد کی تعداد تین تین ہزار تک بنتی ہے۔‘‘

لادفو گویلاوا نے کہا، ''پہلے ترک حکومت ان غیر ملکیوں کو ترک یونانی سرحد کے قریبی علاقوں کی طرف جانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ اب دو روز قبل ترکی نے اپنا رویہ بدل دیا۔ یوں یہ ہزار ہا تارکین وطن استنبول اور دیگر شہروں سے ٹیکسیوں اور بسوں میں سوار ہو کر یونان کے ساتھ ترک سرحدی علاقوں میں پہنچے اور مزید ابھی آ رہے ہیں۔ ان کی بہت بڑی تعداد ترک صوبے ادرنہ سے یونان کے ریاستی علاقے میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے۔ ان تارکین وطن نے گزشتہ رات سخت سردی میں کھلے آسمان کے نیچے بسر کی۔‘‘

Griechenland Flüchtlinge an der türkisch-griechischen Grenze
ہفتہ انتیس فروری کو ترکی سے سمندری راستے سے یونانی جزیرے لیسبوس پہنچنے والی ایک تارک وطن خاتونتصویر: picture-alliance/Zumapress/Eurokinissi

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت کے دیگر ذرائع کے مطابق یہ تارکین وطن صرف اکیلے سفر کرنے والے بالغ مرد ہی نہیں بلکہ ان میں بہت سی خواتین اور چھوٹے بچے بھی شامل ہیں۔ چھوٹے بچوں والے ان خاندانوں کو سخت سردی میں اس وقت بہت شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مقامی کارکنوں کے مطابق ان تارکین وطن میں آئی او ایم کے کارکنوں نے گزشتہ رات بھی اشیائے خوراک اور دیگر امدادی سامان تقسیم کیا۔ اس کے باوجود ان مہاجرین کو اس وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ اس ترک یونانی سرحدی علاقے میں سخت سردی میں درجہ حرارت گزشتہ رات نقطہ انجماد کے قریب تک پہنچ گیا تھا اور ہوائیں بھی بہت تیز تھیں۔

'سینتالیس ہزار سے زائد تارکین وطن نے سرحد عبور کی‘

ترک وزیر داخلہ سلیمان سوئلُو نے آج یکم مارچ اتوار کی صبح بتایا کہ عالمی وقت کے مطابق ہفتے کی رات دس بجے تک اور مقامی وقت کے مطابق ہفتے اور اتوار کی رات نصف شب تک مجموعی طور پر 47113 تارکین وطن نے ترک صوبے ادرنہ کی سرحد عبور کی تھی۔

ادرنہ ترکی کا وہ صوبہ ہے، جس کی سرحدیں یونان اور بلغاریہ کے ساتھ ملتی ہیں۔ ترک وزیر داخلہ کے اس بیان کے برعکس یونان اور بلغاریہ میں حکام نے آج اتوار کی صبح تک اس بارے میں کچھ بھی کہنے سے احتراز کیا کہ آیا ترک حکومتی موقف درست ہے اور واقعی 47 ہزار سے زائد تارکین وطن پناہ کے لیے یونان اور بلغاریہ کے ریاستی علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔

ترک صدر کا 'دروازے کھل جانے‘ کا اعلان

ترکی میں مقیم اور یورپ داخلے کے خواہش مند لاکھوں تارکین وطن میں سے ہزارہا غیر ملکیوں کے ترکی میں یونان اور بلغاریہ کے ساتھ سرحدی علاقوں کی طرف سفر کا آغاز ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے اس اعلان کے بعد ہوا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ انقرہ حکومت اب ان تارکین وطن کو روکنے کی کوشش نہیں کرے گی، جو یورپ جانا چاہتے ہیں۔

ساتھ ہی جمعہ اٹھائیس فروری کے روز صدر ایردوآن نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ترکی نے غیر ملکی تارکین وطن کے لیے اپنی یورپی یونین کے ساتھ ملنے والی سرحدیں کھول دی ہیں۔ اس اعلان کے بعد سے ترکی میں  موجود ہزارہا تارکین وطن ترکی کے یونان اور بلغاریہ کے ساتھ سرحدی علاقوں کی طرف رواں دواں ہیں۔

م م / ع ب (اے ایف پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں