1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گُوگل کی نئی پرائیویسی پالیسی پر امریکہ اور یورپ میں تنقید

3 مارچ 2012

انٹرنیٹ کمپنی گُوگل نے اپنی نئی پرائیویسی پالیسی نافذ کر دی ہے، جس پر امریکہ اور یورپ میں شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ تاہم گوگل کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی سے صارفین کو مزید سہولتیں ملیں گی۔

https://p.dw.com/p/14EJa
تصویر: dapd

گوگل کی اس نئی پالیسی کے تحت صارفین کو زیادہ سے زیادہ انفرادی سروس کی سہولت دی گئی ہے، لیکن اس کے بدلے میں انہیں اس ویب کمپنی کو زیادہ نجی معلومات بھی دینا ہوں گی۔

نئی پالیسی کے تحت گُوگل اپنے صارفین کے بارے میں معلومات اپنی تمام سروسز کے ساتھ شیئر کرے گی۔ یعنی ویڈیو شیئرنگ ویب سائٹ یوٹیوب آپ کے ای میل پیغامات کی بنیاد پر آپ کو ویڈیو مواد فراہم کر سکتی ہے۔

اس حوالے سے گُوگل نے صارفین کو انفارمیشن شیئرنگ کے لیے ’نہ‘ کہنے کی سہولت نہیں دی ہے اور یورپ اور امریکہ میں پرائیویسی کے معاملات پر نظر رکھنے والے ماہرین نے گُوگل کی اس نئی پالیسی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس حوالے سے فرانس کے ریگولیٹری ادارے نے رواں ہفتے کہا تھا کہ گُوگل کی نئی پالیسی یورپی یونین کے ڈیٹا پروٹیکشن قواعد کے خلاف ہے۔ امریکہ میں بھی 36 اٹارنی جنرلوں نے اس پالیسی کو پرائیویسی پر حملہ قرار دیا ہے۔

پرائیویسی کے حوالے سے امریکی ادارے کنزیومر واچ ڈاگ نے اسے ’جاسوس پالیسی‘ کہتے ہوئے اسے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

گُوگل کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی ویب کے لیے اس کی تمام ترجیحات کو باہم کرتی ہے اور اس سے صارفین کو بہتر سروسز ملیں گی۔

خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق لاکھوں صارفین محض اس وجہ سے گوگل کو پس پشت نہیں ڈال سکتے ہیں کیونکہ وہ اس کمپنی کے آپریٹنگ سسٹم اینڈرائڈ والے موبائل فون استعمال کرتے ہیں۔

USA Internet Facebook und Google Apps auf Smartphone
اینڈرائڈ سسٹم والے اسمارٹ فونز کی وجہ سے بھی صارفین کا انحصار گوگل پر ہےتصویر: dapd

اُدھر اسپین کی عدالتِ عظمیٰ نے یورپی عدالت برائے انصاف سے اس بات کا فیصلہ کرنے کے لیے کہا ہے کہ آیا ہسپانوی شہریوں کی جانب سے گُوگل کے سرچ انجن سے ڈیٹا ختم کروانے کی درخواستیں قانونی ہیں یا نہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس مقدمے سے گُوگل پر اپنی پرائیویسی پالیسیوں کے حوالے سے مزید دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

ہسپانوی عدالت کے مطابق اس مقصد کے لیے یورپی عدالت برائے انصاف سے وضاحت کے لیے کہا گیا ہے۔ اسپین کی ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی کو اپنے شہریوں کی جانب سے اس نوعیت کی ایک سو سے زائد درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔

رپورٹ: ندیم گِل / خبر رساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد