’گوگل اور فیس بک انسانی حقوق کے لیے خطرہ‘
21 نومبر 2019انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے جمعرات کو ساٹھ صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں گوگل اور فیس بک کے ''نگرانی پر مبنی بزنس ماڈل‘‘ کو بنیاد بناتے ہوئے، ''انسانی حقوق کی پامالیوں‘‘ کی پشین گوئی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق گوگل اور فیس بک کی طرف سے فراہم کردہ سروسز کی اہمیت کے باوجود لوگوں کو انہیں استعمال کرنے کی قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔
ایمنسٹی کا الزام ہے کہ یہ کمپنیاں بے لگام نگرانی اور ڈیٹا چوری کر کے شہریوں کی ذاتی معلومات جمع کرتی ہیں اور یہ صارفین کے حقوق کی پامالی ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہ کمپنیاں صارفین کی نجی معلومات کو 'اشتہاری کاروباری اداروں‘ کے ہاتھوں فروخت کر رہی ہیں اور یہ رازداری کے حقوق پر ایک بے مثال حملہ ہے۔ ایمنسٹی کے مطابق یہ کمپنیاں صارفین کو 'فاؤسٹین بارگین‘‘ پر مجبور کرتی ہیں یعنی گوگل اور فیس بک تک رسائی کے لیے لوگوں کو اپنی نجی معلومات فراہم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
اس غیر سرکاری تنظیم کے مطابق سب سے برا مسئلہ یہ ہے کہ ان دو بڑی کمپنیوں نے ان تمام پرائمری چینلز پر اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے، جن کے ذریعے لوگ آن لائن دنیا سے منسلک ہوتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اس طرح انہیں لوگوں کی زندگیوں پر بے مثال طاقت حاصل ہو چکی ہے۔
ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ گوگل اور فیس بک سے انسانی حقوق کو براہ راست خطرہ لاحق ہو چکا ہے اور ان میں اظہار رائے، مساوات اور عدم تفریق جیسے حقوق شامل ہیں۔ اس تنظیم نے یورپی یونین اور جرمن حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ نئے قوانین وضع کریں تاکہ آئندہ نسلوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ایمنسٹی کے مطابق تقریباﹰ تین ارب افراد ہر مہینے فیس بک جبکہ دنیا میں نوے فیصد سے زائد انٹرنیٹ صارفین گوگل سرچ انجن استعمال کرتے ہیں۔
رپورٹ میں لکھا گیا ہے، ''حکومتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کو بڑے اداروں کے ہاتھوں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے تحفظ فراہم کریں۔ رپورٹ میں اس امر کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ گزشتہ تقریبا دو عشروں سے ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے کاروبار سے متعلق خود ہی قوانین بنا رہی ہیں۔
دوسری جانب فیس بک نے ایمنسٹی کی اس رپورٹ کو مسترد کر دیا ہے۔ فیس بک کا کہنا ہے کہ صارفین خود ان کی سروسز استعمال کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور انہیں واضح طور پر بتایا جاتا ہے کہ ان سے متعلق کونسا ڈیٹا جمع کیا جائے گا۔
ا ا / ع ا (روئٹرز، اے ایف پی)