1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گوگل ’’آٹو کمپلیٹ‘‘ ایک بار پھر عدالت میں زیر بحث

16 مئی 2013

وفاقی جرمن عدالت ایک فیصلے میں معروف سرچ انجن گوگل سے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ جرمنی میں اپنے ’’آٹو کمپلیٹ‘‘ فنکشن سے ایسے تمام الفاظ کو حذف کردےگا جو کسی کی تضحیک یا دل آزاری کا باعث بنتے ہوں۔

https://p.dw.com/p/18Yod
تصویر: dapd

یہ فیصلہ وفاقی جرمن عدالت نے غذائی سپلیمنیٹس تیار کرنے والی ایک کمپنی کی درخواست پر سنایا ہے۔ اس کمپنی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔ درخواست میں اس کمپنی نے موقف اختیار کیا تھا کہ جب جرمن زبان میں گوگل سرچ انجن میں اس کمپنی کےنام کے ابتدائی الفاظ لکھے جاتے ہیں تو جو لنک فوری طور پر ظاہر ہوتی ہیں ان میں سے ایک فراڈ اور دوسری ساینتولوجی کا ہے۔

درخواست گزار کا کہنا ہے کہ ان دونوں الفاظ کا کمپنی کی پراڈکٹ سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بنتا اور ان دونوں الفاظ کے معنی نہایت منفی ہیں۔ جس کی وجہ سے کمپنی کی شہرت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ لہذا عدالت گوگل کو فوری طور پر یہ ہدایت جاری کرے کہ وہ ان الفاظ کو حذف کردے یا کم از کم اس کمپنی کے نام سے الگ کردے۔

Screenshot Google Bangladesh Unabhängigkeitstag
گوگل انتظامیہ کا کہنا ہے آٹو کمپلیٹ فنکشن کا مقصد تلاش میں مصروف صارف کی اس کی پسندیدہ معلومات تک جلد رسائی میں مدد دینا ہے

گوگل کی جانب سے اس عدالتی فیصلے پر حیرانگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ گوگل انتظامیہ کا کہنا ہے آٹو کمپلیٹ فنکشن کا مقصد تلاش میں مصروف صارف کی اس کی پسندیدہ معلومات تک جلد رسائی میں مدد دینا ہے۔ کمپنی کی جانب سے کہا گیا ہے کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہیں یہ نہیں کہا کہ گوگل کو ایسے تمام الفاظ فوری طور پر ہٹا دینے چاہیں یا انہیں چیک کرنا چاہیے جن سے کسی ادارے یا شخص کی تضحیک ہوتی ہے۔

البتہ اگر گوگل کی توجہ کسی ایسے معاملے کی طرف دلائی جاتی ہے جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہو یا کسی لفظ سے کسی کی تضحیک ہو رہی تو گوگل اسے ہٹا نے کا پابند ہوگا۔ اگر گوگل اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ کسی لفظ یا جملے سے کسی کی تضحیک ہو رہی ہے تو پھر کمپنی کو عدالت میں آکر اس بات کا دفاع کرنا ہوگا۔

حالیہ عدالتی فیصلے میں ڈسڑکٹ کولون کی ایک مقامی عدالت کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے جس میں گوگل کے خلاف درخواست خارج کر دی گئی تھی۔ مقامی عدالت کو اب اس کیس کا ازسر نو جائزہ لینا ہوگا اور اگر درخواست گزار کی شکایت برقرار رہتی ہے تو گوگل کو اسے ہرجانہ بھی دینا پڑسکتا ہے۔

گوگل کو ایک ہائی پروفائل کیس میں بھی اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہ کیس سابق جرمن خاتون اول بیٹینا وولف سے متعلق ہے۔ سابقہ جرمن صدر کی اہلیہ بیٹینا وولف کا نام اگر گوگل میں ٹائپ کیا جاۓ تو انتہائی نازیبا الفاظ سامنے آتے تھے۔۔ اس کیس کا فیصلہ تا حال زیر التواء ہے۔

zb/at(AP)