1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جب درد کا مداوا کرنے والے ہی قاتل بن جائیں

11 فروری 2020

لوبلینٹس کے سینیٹوریم میں نازی سوشلسٹ دور میں بچوں کو بھاری مقدار میں نیند کی گولیاں کھلا کر سلا دیا جاتا تھا اور یہ بچے پھر کبھی بیدار نہیں ہوتے تھے۔ ان بچوں کا واحد قصور ان کی ذہنی معذوری ہوتا تھا۔

https://p.dw.com/p/3XbTH
Elisabeth Hecker
تصویر: Sebastian Ziółek

اپنے لڑکپن میں زوفیا پودزروسکا ہر ہفتے اپنی بہنوں کی قبر پر جاتی تھی۔ 75 سالہ پودزروسکا اس پرانے وقت کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں، ''لیکن میرے بھائی سٹانیسلوو کی قبر کہیں نہیں تھی۔‘‘ اس کا انتقال 1943ء میں اس وقت ہوا تھا، جب وہ ابھی صرف گیارہ برس کا تھا۔ ''مجھے یہ پتا تھا کہ میری دو بہنیں بچپن میں ہی بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئی تھیں جبکہ میرے بھائی کے بارے  میں میرے والدین نے صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ لوبلینٹس کے دارالصحت یا سینیٹوریم میں تھا۔‘‘

Polen Friedhof hinter der neuropsychiatrischen Klinik in Lublinitz
تصویر: DW/O. Kortas

لوبلینٹس پودزروسکا کے گھر سے ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ لوبلینٹس میں واقع ایک اجتماعی قبر میں سٹانیسلوو بھی دفن ہے۔ یہ قبرستان ہسپتال کے عقب میں واقع ہے اور یہاں پر  قبریں جھاڑیوں کے پیچھے چھپ سی گئی ہیں۔ یہاں پر نہ تو کسی قبر پر کوئی موم بتی جل رہی ہےاور نہ ہی کسی قبر پر پھول دکھائی دے رہے ہیں۔ دھات سے بنے ہوئے ایک بڑے سے بورڈ پر فراموش کیے گئے اس مقام کو''  قومی یادگار‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اس کے نیچے ایک اجتماعی قبر میں وہ 194 بچے دفن ہیں، جو 1942ء سے 1944ء تک نازیوں کے تجربات کا شکار ہوئے تھے۔

سٹانیسلوو مرگی کا مریض تھا اور نازی سوشلسٹوں کی نظر میں یہ اور اس طرح کے دیگر بچے معاشرے پر بوجھ تھے۔ سٹانیسلوو کے والد نے بعد ازاں تفتیشی عمل کے دوران بیان دیتے ہوئے کہا تھا،''دوسری عالمی جنگ شروع ہونے سے قبل میرے بچے کو افاقہ ہونا شروع ہو گیا تھا لیکن 1942ء میں سٹانیسلوو کو لوبلینٹس بھیج دیا گیا۔ ہم رضامند نہیں تھےتاہم کہا گیا کہ یہ سرکاری فیصلہ ہے۔‘‘

ڈاکٹروں کے ہاتھوں موت

نازی سوشلسٹ رہنما آڈولف ہٹلر کی خواہش کے مطابق مریضوں کی ذہنی بیماریوں اور جسمانی معذوری کے بارے مطلع کرنے کی ذمہ داری ڈاکٹروں کی تھی۔ اس کے بعد کوئی ماہر انہیں موت کی نیند سلانے کا مشورہ دیتا تھا۔ اس کے بعد ایک کمیٹی موت کا پروانہ ڈاکٹروں کو بھیج دیتی تھی۔ ڈاکٹر ایلیزابتھ ہیکر نے اس کمیٹی سے ایک لڑکے کے حوالے سے جلد اس طرح کا حکم نامہ جاری کرنے کی درخواست کی تھی۔

Befragungsbogen Doktor Elisabeth Hecker
تصویر: Archiv LWL/Best. 132/402

یان پولوک لوبلینٹس میں جب پہلی مرتبہ اپنے بیٹے سے ملنے گئے تھے تو انہیں ایک عجیب سا احساس  ہوا تھا،''مجھے پہلے اس سے ملنے نہیں دیا گیا، پھر اسے خاص قسم کے کپڑوں میں اسے میرے سامنے لایا گیا۔ ڈاکٹروں نے کوئی امید نہیں دلائی اور ہمیں شروع ہی خدشہ تھا کہ سٹانیسلوو کے حوالے سے ان کا کوئی منصوبہ تھا۔ میرا بیٹا بہت مضبوط اور طاقتور تھا اور اچانک وہ بہت ہی لاغر سا ہو گیا تھا۔‘‘

 چار ستمبر 1943ء کو سٹانیسلوو کا انتقال ہو گیا اور یہ اس کے والدین کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ زوفیا پودزروسکا کو بعد ازاں ڈی ڈبلیو کی جانب سے کی جانے والی تحقیق سے علم ہوا کہ اس کے بھائی کو منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا تھا۔

نیند کی گولیاں، موت کی نیند سلانے کے لیے

جرمن دستوں نے لوبنٹس کے سنیٹوریم کا انتظام پولینڈ پر قبضہ کرنے کے بعد اولین دنوں میں سنبھال لیا تھا۔ 1941ء کے موسم خزاں میں یہاں پر ڈاکٹر ایلیزابتھ ہیکر کی نگرانی میں ''نوجوانوں کے نفسیاتی مسائل‘‘ کا شعبہ قائم کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ہیکر لاعلاج مریضوں کو 'بی وارڈ‘ میں بھیج دیتی تھیں۔ ہسپتال کے باہر قائم اس وارڈ میں ایرنسٹ بوشالک نوجوان مریضوں کو ادویات دیتے تھے۔

 بوشالک کے مطابق نیند کی یہ دوا اس لیے دی جاتی تھی کہ یہ بچے خود کو نقصان نہ پہنچا سکیں۔ تاہم اس دوران انہیں علم تھا کہ لومینل گولیوں کی بھاری مقدار کس طرح ان مریضوں کو موت کے گھاٹ اتارنے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہے۔ بوشالک کی ایک تحریر کے مطابق،''ایک سے چودہ برس کی درمیانی عمر کے 235 بچوں کو لومینل گولیاں دی گئیں اور ان میں سے 221 بچے ہلاک ہو گئے۔‘‘

نیو نازی گروہ کی برلن میں گشت

     ع ا / ا ا (اولیویا کورتاس)