گولان پہاڑیاں:عرب لیگ اور یورپی یونین امریکی فیصلے کے خلاف
31 مارچ 2019عرب لیگ کا سالانہ اجلاس تیونس میں جاری ہے، جس میں عرب ممالک کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیدریکا موگیرینی بھی شریک ہیں۔ یہ سالانہ اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے، جب شام اور یمن کی خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ لیبیا میں متحارب گروپوں کے مابین اقتدار کی کشمکش جاری ہے اور سعودی عرب کے چند اتحادی ممالک نے قطر کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔
الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ اور سوڈانی صدر عمر البشیر ملک میں جاری احتجاجی مظاہروں کی وجہ سے اس میں شریک نہیں ہو پائے ہیں۔ شام کے علاوہ اس تنظیم کے تمام بائیس رکن ممالک نے مشترکہ طور پر مقبوضہ گولان پہاڑیوں سے متعلق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ چند روز قبل امریکی صدر نے مقبوضہ گولان پہاڑیوں کو اسرائیلی علاقے کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔ اسرائیل نے سن 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران اس شامی علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔
اس موقع پر سعودی شاہ سلمان کا کہنا تھا، ’’ہم ہر اس اقدام کو مسترد کرتے ہیں، جو گولان ہائٹس پر شامی حاکمیت کو کمزور بنائے۔‘‘ شاہ سلمان کا کہنا تھا کہ وہ مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں ایک ایسی فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں، جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو۔ تاہم انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ خطے کا استحکام ایران کی دخل اندازی کی وجہ سے متاثر ہوا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق عرب لیگ کے سالانہ اجلاس میں امریکی صدر کے فیصلے کی مذمت کی توقع تو کی جارہی تھی لیکن عرب لیگ کی طرف سے مزید کوئی اقدام اٹھانے کا امکان کم ہی ہے۔
’اقوام متحدہ کی قرارداد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا‘
دوسری جانب یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ فیدریکا موگیرینی کا تیونس میں کہنا تھا کہ ’گولان ہائٹس‘ سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد کو نظرانداز کرنا اس مسئلے کا ’کوئی حل نہیں‘ ہے۔ انہوں نے عرب لیگ سے خطاب کے دوران کہا کہ اسرائیل کے ساتھ ساتھ فلسطینی ریاست کا قیام ہی اس مسئلے کا واحد حل ہے۔ موگیرینی کے بقول، ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ’دو ریاستی حل‘ کو ناقابل عمل بنانے سے روکا جائے۔‘‘
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش نے عرب لیگ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شامی مسئلے سے متعلق مستقبل کی کسی بھی قرارداد میں شام کی علاقائی ضمانت فراہم کرنا ضروری ہے اور اس میں گولان کی پہاڑیاں بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل اور فلسطین کے لیے دو ریاستی حل ’لازمی‘ تھا۔
دوسری جانب قطر کے امیر تميم بن حمد ال ثانی عرب لیگ سمٹ چھوڑ کر واپس اپنے ملک پہنچ گئے ہیں۔ قطر کے خلاف سعودی پابندیوں کے بعد یہ پہلا ایسا موقع تھا کہ وہ کسی ایسی کانفرنس میں شریک ہوئے، جہاں سعودی رہنما بھی موجود تھے۔ انہوں نے اس اجلاس میں خطاب بھی نہیں کیا۔ عرب سمٹ کو چھوڑ کر ان کے واپس جانے کی وجوہات ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔
ا ا / آ ع (اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے)