1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گلگت سے چترال تک خودکُشیوں کی ایک لہر ہے، کیسا قہر ہے؟

18 جون 2022

گلگت بلتستان میں گزشتہ پانچ برسوں میں خودکُشیوں کے دو سو سے زائد واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں۔ خود کشی کرنے والوں میں تقریبا 120 مرد اور 105 خواتین شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/4CswE
DW Urdu Blogger Farnood Alam
تصویر: Privat

دریائے گلگت کو دائیں جانب رکھتے ہوئے شہر سے نکلیں تو آپ غذر ڈسٹرکٹ میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس ایک ڈسٹرکٹ میں ہونے والی خود کشیوں کی تعداد کم وبیش 115 ہے۔ ان میں 40 فیصد سے کم مرد ہیں اور 60 فیصد سے زیادہ خواتین ہیں۔ گزشتہ چالیس روز میں یہاں 17 خودکُشیاں ہوئی ہیں۔ ابھی جب یہ سطریں لکھ رہا ہوں، غذر کے علاقے یاسین سے ایک اور نوجوان کی خبر آ گئی ہے، تعداد 18 ہو گئی ہے۔

غذر کی بل کھاتی ہوئی شاہراہ پر یونہی چلتے رہیں تو آپ شندور کی بلندیوں سے ہوتے ہوئے چترال میں اتر جاتے ہیں۔ پچھلے سات آٹھ برسوں میں یہاں ہونے والی خودکشیوں کی تعداد 500 سے تجاوز کر چکی ہے۔ گلگت کی نسبت یہاں خودکشی کرنے والوں میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔ مردوں میں بڑی تعداد اُن کی ہے، جن کی عمر پندرہ سے پچیس سال کے بیچ بنتی ہے۔ کتنی پریشانی کی بات ہے یہ دوست!

سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب گلگت اور چترال میں ہی کیوں اور پھر انہی علاقوں میں کیوں، جہاں خواندگی کی شرح پاکستان کے بڑے شہروں سے بھی زیادہ ہے؟ جہاں نوجوان بظاہر کسی بڑی الجھن کا شکار نظر نہیں آتے، اچھا پہنتے ہیں اچھا کھاتے ہیں۔ سلیقے سے بال بناتے ہیں، صفائی کا خیال رکھتے ہیں۔ گیت گاتے ہیں رقص کرتے ہیں، شعر پڑھتے ہیں، موسیقی سنتے ہیں۔ دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں اور پیارا سا مسکراتے ہیں۔ پھر اپنے ہاتھوں اپنی جان کیوں لے لیتے ہیں، کیا سکون حد سے گزر گیا ہے؟ یا اندر ہی اندر کوئی پریشانی کھائے جارہی ہے، جو انٹرو ورٹ طبعیت رکھنے والا شمال کسی کو بتانا نہیں چاہتا؟ 

اس سوال کے جواب میں بھانت بھانت کی بولیاں ہیں۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ بظاہر بہت اچھا نظر آ رہا ہے، اسی اچھے میں کچھ صورتیں بگاڑ کی پیدا ہو گئی ہیں۔ اگر تعلیم ہے تو تعلیم میں پھر مقابلہ کانٹے کا ہے۔ دو نمبر پیچھے رہ جانے والے کو بھی منہ چھپا کر گزرنا پڑتا ہے۔ نظریں چبھتی ہیں اور سوال تنگ کرتے ہیں۔ جو تعلیم میں بالکل ہی رہ جائے، وہ تو کہیں کا نہیں رہتا۔ (حالانکہ شمال کا ناخواندہ ہمارے خواندہ سے ایک جماعت زیادہ ہی پڑھا ہوا ہوتاہے)۔

بے روزگاری، مواقع کی کمیابی، سماجی رکاوٹیں اور فرسودہ روایات سے جنم لینے والے المیے اس کے علاوہ ہیں۔ یہ صورتِ حال نوجوانوں کو تنہائی کے حوالےکردیتی ہے، اور پھر تنہائی کے موڈ پر ہے کہ وہ ہاتھ آئے ہوئے نوجوانوں کو کس طرف لے جاتی ہے۔ ان دنوں تو موت کی گہری وادیوں میں لے جا رہی ہے۔ 

کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ خواتین شرح خواندگی میں مردوں سے آگے نکل گئی ہیں۔ یہ بات مردوں کی انا پر ایک بڑی ضرب ہے۔ خواتین نوکریاں کر رہی ہیں، برابری کر رہی ہیں اور کئی مثالوں میں تو گھر کا بوجھ بھی اٹھا رہی ہیں۔ یہ صورتِ حال پدر سری سماج میں مرد جاتی کی غیرت پر کچھ سنگین سوال اٹھا دیتی ہے، جو ذہنی الجھن میں بدل جاتے ہیں۔ الجھن کی جنہیں سلجھن نہیں ملتی، وہ موت سے مدد مانگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

پھر ایک مسئلہ کچھ خواتین کو درپیش ہے۔ یہ پڑھ لکھ کر بھی روایتی بیوی بننے پر مجبور ہیں۔ ان کی ترجیح اور مرضی نہیں چلتی۔ اتنی بھی نہیں کہ شادی کے لیے مناسب وقت کا فیصلہ ہی وہ خود کر لیں۔ بس جو بڑوں نے کہہ دیا، سو کہہ دیا۔ روایت کے سامنے ہتھیار ڈال کر انہیں ایسے مردوں سے شادی کرنی پڑ جاتی ہے، جن کے ساتھ ان کا جوڑ نہیں بیٹھتا۔ اکثر شوہروں کی ٹوٹل کوالیفیکیشن یہ ہوتی ہے کہ وہ مرد ہوتے ہیں۔ اِس ایک فضیلت کا بہت بھاری ٹیکس ہے، جو عورتوں کو روزانہ کی بنیاد پر ادا کرنا پڑتا ہے۔ روز جینا روز ہی مرنا، یہ ذرا مشکل کام ہے۔

لاعلمی بھی تو ایک طرح کی نعمت ہی ہوتی ہے۔ آپ نے چیری نام نہیں سنا تو آپ کو ذائقہ بھی نہیں معلوم۔ ذائقہ ہی نہیں معلوم تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ کا ذوق کس چیز سے محروم ہے؟ ذائقے کا تعارف ہو گا تو ہی یہ کافر منہ کو لگے گی۔ طلب ہو گی اور اگلے موسم کا انتظار ہو گا۔ طلب اور انتظار کو پناہ نہ ملے تو طبعیت میں پیچیدگیاں جنم لیتی ہیں۔ گلگت کے، جن علاقوں میں خواتین پڑھی لکھی نہیں ہیں، وہ مطمئن ہیں۔ انہوں نے سامنے والے پہاڑ سے آگے کی دنیا نہیں دیکھی، سو انہیں رائیگانی کا احساس بھی نہیں ہے۔

جن علاقوں میں تعلیم ہے، وہاں لڑکیوں کی آنکھ آگہی کے عذاب میں مبتلا ہو چکی ہیں۔ وہاں کی عورتوں نے تعلیم اور شعور کی آنکھ سے زندگی کے نئے رنگ دیکھ لیے ہیں۔ اپنا حق جان لیا ہے اور طاقت کا درست تخمینہ لگا لیا ہے۔ نئے امکانات کو وسیع ہوتا ہوا دیکھ لیا ہے۔ اب ایک طرف صلاحیت کا تقاضا ہے کہ مجھے کہیں کھپاؤ اور دوسری طرف روایت کا حکم ہے کہ پاؤں سمیٹ کر واپس چلے آو۔ بچے پیدا کرو، انہیں پالو، گھر گرستی کرو، ہمارا دم  اور  صاحب کا پانی بھرو۔

 بزرگوں کی اس ایک خواہش پر انہیں اپنے سارے خواب اور کامیابی کے ہر امکان کو قربان کرنا پڑتا ہے۔ یعنی زندگی کا فریب دے کر انہیں جنت سے نکالا گیا۔ زندگی کی لت لگ گئی تو اب پھر سے جنت کا شوق جگایا گیا۔ آسان بھاشا میں یہ نئے خوابوں اور پرانی روایتوں کے بیچ پیدا ہونے والا جان لیوا تصادم ہے۔ خوابوں کی مانو تو بڑوں کے دل ٹوٹتے ہیں، بڑوں کی مانو تو خواب ٹوٹتے ہیں۔

حل پوچھیں تو کچھ لوگ کہتے ہیں، اب دو ہی راستے ہیں۔ یا تو نوجوانوں کو تعلیم اور مشاہدے سے محروم کر دیا جائے یا پھر روایت سے جڑے ہوئے لوگ اپنے قدیم اصولوں پر سمجھوتہ کر لیں۔ ارتقا کا چلن یہ بتاتا ہے کہ روایت کو ہی ہتھیار ڈالنے پڑیں گے۔ یہ ہتھیار نہ ڈالیں تو بھی جیت خوابوں کی ہو گی مگر دیر ہو جائے گی۔ ہتھیار ڈال لیں گے تو اپنے آشیانے کو اپنے ہی ہاتھوں پھونکنے سے بچ جائیں گے۔

ایک پہلو اور ہے، جو کہ سنگین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان خودکُشیوں میں زیادہ تر واقعات غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے ہیں۔ یہ قتل کبھی بھائی کے ہاتھوں ہوا، کہیں منگیتر کے ہاتھوں، کہیں بوائے فرینڈ کے ہاتھوں اور کبھی شوہر کے ہاتھوں۔ اس کہانی میں نوجوان لڑکے بھی مارے گئے۔ یہ قتل اس لیے چپ چاپ کرنے پڑتے ہیں کہ شمالی علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کرنے والے کو ہیرو نہیں مانا جاتا۔ دوسرے علاقوں کی طرح یہاں قاتل سینہ چوڑا کر کے جرگوں میں نہیں بیٹھ سکتا۔

خواتین کے کیس میں زیادہ تر دریا کا ذکر ملتا ہے جبکہ مردوں کے کیس میں پنکھے، گولی، زہر اور پھندے کا حوالہ ملتا ہے۔ کچھ لوگ اس بات کو بہت قابلِ غور قرار دیتے ہیں کہ دریا ہی کیوں؟ ان کا ماننا یہ ہے کہ یہ ایک محفوظ طریقہ واردات ہے، جس میں بندوق کا تکلف کرنا پڑتا ہے نہ فنگر پرنٹس جیسے شواہد کا کوئی خطرہ رہتا ہے۔ دریا میں ڈوب کر مرنے والے کی اول تو لاش نہیں ملتی، مل جائے تو تقریبا مسخ ہو چکی ہوتی ہے۔ سو غیرت کے نام پر قتل کے لیے گھاٹ دریا کے کنارے لگا دیے ہیں۔

اسی طرح ذاتی لڑائی جھگڑوں میں ہونے والی قتل کا الزام بھی خودکُشی کے کھاتے میں ڈالنے کا رجحان بھی موجود ہے۔ خودکُشیوں کے تقریبا 60 کیسز قتل کی واردات ثابت ہو چکے ہیں۔ غذر ڈسٹرکٹ میں ہونے والی حالیہ 18 خودکُشیوں میں سے چار پر پولیس نے قتل کا شبہ ظاہر کیا ہے۔ 

خودکشیوں کی یہ غیر معمولی تعداد بھی مقامی اور غیر مقامی اداروں کو ایک حد سے زیادہ متحرک کرنے میں ناکام ہے، نہ جانے کیوں؟ عالمی ادارے آواز دینے پر ایک نظر اِس جانب دیکھتے ہیں اور واپس اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ حکومتی کمیٹیاں بھی اس سلسلے میں نشست و برخاست کی مشقیں بن کر رہ گئی ہیں۔ ایسی کوئی مستند رپورٹ اب تک سامنے نہیں آئی، جس میں اس بنیادی انسانی المیے کا نفسیاتی، سماجی، ثقافتی، ماحولیاتی اور معاشی پہلووں سے احاطہ کیا گیا ہو۔ کچھ غیر منظم سی آراء ہیں، جو یہاں وہاں بکھری پڑی ہیں۔

غذر ڈسٹرکٹ کی سول سوسائٹی اب کی بار سنجیدہ انداز میں اس المیے کا تعاقب کرنے نکلی ہے۔ پورے شمال سے انہوں نے قریب چار سو نوجوانوں کا معرکہ (جرگہ) طلب کیا ہے۔ اس معرکے میں سماج بولے گا اور فیصلہ ساز سنیں گے۔ اختتام پر 'چارٹر آف ڈیمانڈ آن مینٹل ہیلتھ‘ کے عنوان سے کچھ مانگیں رکھی جائیں گی۔

باقی المیے اپنی جگہ لیکن تازہ المیہ یہ ہے کہ کاہلی، غفلت، فرار، غربت اور موت کی گلوریفیکیشن ہو رہی ہے۔ پراگندگی، بدمزگی، بیزاری اور زود رنجی کو سنجیدگی اور گہرائی کا ثبوت سمجھا جا رہا ہے۔ خودکُشی کو عظمت کی علامت بھی بتایا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات سننے سنانے میں دلچسپی لی جا رہی ہے،جن میں بڑے لوگوں نے خودکُشیاں کیں۔ ان لوگوں میں ایک کراچی کے جواں مرگ شاعر ثروت حسین بھی ہیں۔ ثروت حسین کا ایک شعر ان دنوں زبان زدِ عام ہے۔ بلکہ سوشل میڈیا پر کچھ ہنستے بستے نوجوانوں کی بائیو میں بھی لکھا نظر آرہا ہے۔

موت کے درندے میں ایک کشش تو ہے ثروت

لوگ کچھ بھی کہتے ہوں خودکُشی کے بارے میں

خدا کرے غذر کے نوجوانوں جیسے نوجوان ملک بھر میں اٹھیں اور لوگوں کے حافظے سے ثروت کا شعر مٹا کر فرح رضوی کی یہ تضمین نقش کر دیں

موت کے درندے میں کچھ کشش نہیں رکھی

کچھ کبھی بھی مت کہیے خودکُشی کے بارے میں  

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔