1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گزشتہ برس شامی خانہ جنگی میں چھہتر ہزار انسان مارے گئے

مقبول ملک1 جنوری 2015

قریب چار سال سے جاری خانہ جنگی کے شکار مشرق وسطیٰ کے ملک شام میں کل بدھ کے روز ختم ہونے والے سال 2014ء کے دوران مجموعی طور پر 76 ہزار سے زائد انسان مارے گئے۔ یہ بات آج جمعرات کے روز ایک مانیٹرنگ گروپ نے بتائی۔

https://p.dw.com/p/1EDxp
تصویر: REUTERS/Nour Fourat

لبنان کے دارالحکومت بیروت سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق برطانیہ میں قائم شامی اپوزیشن تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کی طرف سے یکم جنوری کے روز بتایا گیا کہ شامی تنازعے میں گزشتہ برس مجموعی طور پر 76021 افراد مارے گئے، جن میں سے 33278 یا قریب 44 فیصد عام شہری تھے۔ اس طرح پچھلے سال شام کے خونریز تنازعے میں مارا جانے والا تقریباﹰ ہر دوسرا فرد ایک سویلین تھا۔

شام کے انتہائی خونریز ثابت ہونے والے اس تنازعے کی ابتداء مارچ 2011ء میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں سے ہوئی تھی لیکن چند ہی مہینوں میں یہ تنازعہ باقاعدہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر گیا تھا۔

اقوام متحدہ کے بڑے محتاط اندازوں کے مطابق شام میں جاری خانہ جنگی اب تک ایک لاکھ 91 ہزار سے زائد انسانوں کی جان لے چکی ہے۔ اس کے علاوہ خانہ جنگی سے بچنے کی کوشش میں بےگھر ہونے والے کئی ملین شامی باشندے اندرون ملک اور متعدد ہمسایہ ملکوں میں بھی پناہ گزین ہو چکے ہیں۔

Syrien Truppenbesuch Assad 1. Jan. 2015
سرکاری میڈیا کے مطابق صدر اسد نے حکومتی فوج اور حامی فائٹروں سے محاذ پر ملاقاتیں کیںتصویر: picture-alliance/dpa/AP Photo/SANA

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی بین الاقوامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق تو شام میں اب تک ہلاک ہونے والے انسانوں کی تعداد ایک لاکھ 91 ہزار کے قریب بنتی ہے لیکن حقیقت میں ان ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

اسی دوران شامی دارالحکومت دمشق سے آمدہ رپورٹوں میں سرکاری میڈیا کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ نئے سال کے آغاز سے قبل شامی صدر بشار الاسد نے کل 31 دسمبر کی شام دمشق کے مشرقی حصے میں ایک ایسے علاقے میں گزاری، جہاں شام کے سرکاری دستوں اور اپوزیشن جنگجوؤں کے مابین بار بار کے ہلاکت خیز تصادم کی وجہ سے اکثر شدید کشیدگی پائی جاتی ہے۔

دمشق شہر کا یہ مشرقی حصہ شامی خانہ جنگی کے اگلی صفوں کے محاذوں میں شمار ہوتا ہے اور صدر بشار الاسد تو کجا وہاں کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار کا دورہ بھی شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ بشار الاسد نےاپنے اس دورے کے دوران زیادہ تر وقت وہاں موجود ملکی سکیورٹی دستوں کے ساتھ گزارا، جس کی ویڈیو فوٹیج بعد میں ریاستی ٹیلی وژن پر بھی دکھائی گئی۔

اس فوٹیج میں شامی صدر کو دمشق شہر کے اس علاقے میں سرکاری فوجیوں اور حکومت کے حامی ملیشیا گروپوں کے مسلح ارکان کے ساتھ رات کا کھانا کھاتے ہوئے بھی دکھایا گیا۔ شام میں حکومت کی طرف سے ان حکومت نواز فائٹرز کو ’نیشنل ڈیفنس فورسز‘ کے ارکان قرار دیا جاتا ہے۔