1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گریٹا تھنبرگ اپنا نام اور مہم ٹریڈ مارک کروانا چاہتی ہیں

30 جنوری 2020

ماحولیات کے لیے کام کرنے والی عالمی شہریت یافتہ طالبہ گریٹا تھنبرگ کا کہنا ہے کہ وہ اپنی مہم کو تجارتی مقاصد کے لیے استعمال ہونے سے بچانے کے لیے اپنے نام کے ساتھ ساتھ اپنی تحریک کو ٹریڈ مارک کروانا چاہتی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3X0Ln
Hamburg | Greta Thunberg - Klimaaktivistin mit Transparent "Skolstrejk for Klimatet
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Bockwoldt

17 سالہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنی مہم اور اس سے وابستہ سرگرمیوں کو ٹریڈ مارک کروانے کا اعلان کرتے ہوئے لکھا کہ اس کا مقصد ماحولیات سے متعلق مہم ’فرائیڈےفار فیوچر‘ کو تحفظ بخشنا ہے۔ انھوں نے اس تحریک کے لیے ملنے والی رقومات میں شفافیت برتنے کے لیے ایک ادارے کے قیام کی بات بھی کہی ہے۔ اس سے متعلق اپنی پوسٹ میں انھوں نے کہا کہ انھیں اور ان کے اسکول کے ساتھیوں کو ٹریڈ مارک کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، ’’لیکن بد قستمی سے ایسا کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
اس کے تحت گریٹا تھنبرگ کا نام، ماحولیات سے متعلق ان کی مہم ’فرائیڈے فار فیوچر‘ اور ان کے معروف نعرے ’سکول ستریک فار کلیماتا‘  کو ٹریڈ مارک کے طور پر درج کیا جائے گا۔ سویڈش زبان کے اس نعرے کا مطلب ہے کہ ماحولیات کے لیے اسکول کی اسٹرائیک۔ تھنبرگ مذکورہ نعرے کے ساتھ سویڈین کی پارلیمان کے باہر تنہا کھڑی ہوئی تھیں جس سے بہت سے دیگر ماحولیات کے کارکنان کو مہمیز ملی اور وہ اس مہم کا حصہ بنے۔ 
گریٹا تھنبرگ کا کہنا ہے کہ ان کے نام اور مہم کو ’’بغیر اجازت مسلسل تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اسے مارکیٹنگ اور دیگر مصنوعات کی فروخت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور میرے نام اور مہم کے نام پر پیسہ جمع کیا جارہا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’فرائیڈے فار فیوچر وہ بین الاقوامی تحریک ہے جس کی بنیاد میں نے رکھی ہے اور یہ ہر اس شخص کی ہے جو اس میں شامل ہو، خاص طور پر نوجوانوں کے لیے۔ ذاتی مفاد یا پھر تجارتی مقاصد کے لیے اس کا استعمال ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
گریٹا تھنبرگ کا کہنا ہے کہ وہ اور ان کے اہل خانہ مہم کو ملنے والی رقم کا شفافیت سے حساب کتاب رکھنے کے لیے ایک ادارہ قائم کرنے جارہے ہیں۔ 
طالبہ گریٹا تھنبرگ کا تعلق سویڈن سے ہے۔ انہیں پچھلے سال امریکی رسالے ’ٹائم میگزین‘ کی طرف سے سال 2019ء کی ’پرسن آف دی ایئر‘ کا اعزاز دیا گیا تھا۔ اسی ماہ انھوں نے سوئٹزرلینڈ کے شہر داووس میں عالمی اقصادی فورم میں دنیا کی سرکردہ کاروباری اور سیاسی شخصیات سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دنیا کو درپیش سنگین ماحولیاتی خطرات کے حوالے سے شعور اجاگر کرنے کی ان کی کوششوں کے باوجود اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ماحول کی تباہی سے نمٹنے میں سائنس اور نئی نسل کی تشویش کو مرکزی حیثیت حاصل ہونا چاہیے۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ڈی پی اے)