1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گرین لینڈ: امریکا، چین اور روس کی بڑھتی دلچسپی، کیوں؟

23 مئی 2020

امریکا نے ہمیشہ گرین لینڈ کو اپنے اثر و رسوخ کے تحت دیکھا ہے لیکن اس جزیرے کی بڑھتی خود مختاری امریکا کے لیے ایک خطرہ ہے۔ امریکا کے بعد اب چین اور روس بھی بحر قطب شمالی کے خطے میں قدم جمانے کا ایک موقع دیکھ رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3cfhj
Nuuk Grönland
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Wäschenbach

شمالی بحر اوقیانوس اور بحر قطب شمالی کے درمیان واقع جزیرہ گرین لینڈ دوسری عالمی جنگ سے ہی امریکا کے دفاع کے لیے انتہائی اہم رہا ہے۔ یہاں سے نازی جرمنی کے بحری جہاز اور آبدوزوں کی نقل و حرکت کی نگرانی کی جاتی تھی۔ تاہم اب یہ جزیرہ امریکا، روس اور چین کی نظروں کا مرکز بن رہا ہے۔

گرین لینڈ میں امریکا سن 1953 کے بعد رواں سال موسم گرما میں اپنا پہلا سفارتی مشن قائم کرنے جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکا کی جانب سے دنیا کے سب سے بڑے جزیرے کے لیے بارہ ملین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ عالمی طاقتیں اس جزیرے پر کنٹرول سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہیں؟

Infografik Karte USA-Grönland-Dänemank EN

امریکا کا ہدف اس بار بھی وہی ہے جو اسی برس قبل تھا۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ایک عہدیدار نے ایک پریس بریفنگ میں کہا کہ واشنگٹن حکومت ایک محفوظ اور مستحکم آرکٹک چاہتی ہے جہاں امریکی مفادات کا تحفظ یقینی ہوسکے۔ لیکن ماضی کے برعکس اس مرتبہ امریکا کے مفادات کے لیے چیلنج جرمنی نہیں بلکہ روس اور چین ہیں۔

گرین لینڈ برائے فروخت نہیں

گرین لینڈ ڈنمارک کا ایک خود مختار جزیرہ ہے۔ سن 2009 سے یہاں کا زیادہ تر انتظام مقامی حکومت کے پاس ہے لیکن اس کے خارجہ امور، دفاع اور مالیاتی پالیسی سے متعلق فیصلے ڈنمارک کی طرف سے کیے جاتے ہیں، جو اس کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ بھی ادا کرتا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ گرین لینڈ کو خریدنے کی دلچسپی کا اظہار کر چکے ہیں۔

Anti Trump Demonstration Dänemark
تصویر: Imago Images

گرین لینڈ اپنی اہم سیاسی جغرافیائی حیثیت کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل سے بھی مالا مال ہے۔ اس جزیرے پر تیل، گیس اور معدنیات کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں مچھلیاں اور دیگر سمندری حیات بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ اس جزیرے کا تین چوتھائی حصہ برف کی تین کلومیٹر موٹی تہہ سے ڈھکا ہوا ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے:گرین لینڈ شارک، ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں میں طویل ترین عمر کی حامل

گرین لینڈ کی سب سے بڑی صنعت مچھلیوں کی برآمد کی ہے اور سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ مشرقی ایشیا ہے۔ گرین لینڈ کی حکومت مشرقی ایشیا کا ایک قونصل خانہ قائم کرنے کے خیال پر غور کر رہی ہے۔ چین کی سرکاری کان کنی کی کمپنی 'شینگے ریسورسز ‘  نے گرین لینڈ میں معدنیات کی تیاری میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ چینی کمپنی گرین لینڈ کے سب سے بڑے کان کنی کے منصوبوں میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتی ہے۔

اقتصادی اور دفاعی مفادات

گرین لینڈ میں سرمایہ کاری کے مواقع، قدرتی وسائل اور بحر قطب شمال میں اثر ورسوخ بڑھانے کے عزم نے چین کی دلچسپی کو اجاگر کیا ہے۔ دوسری جانب اس جزیرے پر روس کی دلچسپی اقتصادی مفادات کے ساتھ ساتھ سکیورٹی خدشات سے منسلک ہے۔ ماہرین کے مطابق بحر قطب شمالی روس کے جوہری ہتھیاروں کا ایک مرکز ہے اور اس کے تحفظ کے لیے روس کی شمالی بحر اوقیانوس کے درمیان واقع آئس لینڈ اور گرین لینڈ تک رسائی بہت ضروری ہے۔

Thulebasen Thule Air Base in Grönland
تصویر: Imago Images

گرین لینڈ کے شمال مغرب میں امریکی تھول ایئر بیس قائم ہے۔ امریکا یہاں سے سیٹیلائٹ مانیٹرنگ اور بین البراعظمی میزائلوں کی نگرانی کے ساتھ ساتھ طیاروں کو لانچ کر سکتا ہے، جو کہ امریکا کو ایک اسٹریٹجک برتری فراہم کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پورا گرین لینڈ خرید لینے پر غور کریں، ٹرمپ کا مشیروں کو حکم

دو ملین مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے گرین لینڈ کی آبادی صرف 57 ہزار ہے، جس میں سے اکثریت کا تعلق قدیم مقامی باشندوں کی اِنّوئیٹ آبادی سے ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق گرین  لینڈ کو عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے شدید اثرات کا سامنا بھی ہے۔

ع آ / ع ت (ایلکس میتھیوس)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں