1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہیونان

يونان میں چھ روزہ ورکنگ ویک کا تجربہ

29 جون 2024

یونان اپے ہاں ورکنگ ویک کو چھ روزہ بنانے جا رہا ہے جبکہ دیگر یورپی ممالک دفتر میں وقت کم کرنے کا تجربہ کر رہے ہیں۔ حکومت افرادی قوت کی کمی دور کرنے اور غیر دستاویزی کاموں کے سد باب کی امید رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4hR8y
Griechenland Tourismus Wirtschaft
تصویر: Dimitris Aspiotis/Pacific Press Agency/IMAGO

 

زیادہ تر شہریوں کے لیے ''لیبر لاء‘‘ یا لیبر قوانین ایک بورنگ موضوع ہے تاہم جب کوئی یہ تجویز پیش کرے کہ ہفتے میں ایک پورا دن اضافی کام کیا جانا چاہیے تو یہ بات ہر کسی کی توجہ کا مرکز بنتی ہے۔  یونان میں یکم جولائی سے نئے ضوابط نافذ ہونے جا رہے ہیں، جن کے تحت  ہفتے میں ایک مکمل دن بطور اضافی ورکننگ ڈے شامل ہو گا۔

ان ضوابط کے نفاذ کے بعد تمام کاروبار ہفتے میں چھ دن ہوا کریں گے۔ اس طرح ایک عام قانونی ورکنگ ویک کو 40 گھنٹے سے لے کر 48 گھنٹے تک لے جایا جا سکتا ہے۔  اس سے قبل ایسا آپشن صرف چند شعبوں جیسے کہ فوڈ سروس اور سیاحت کے لیے موجود تھا۔

اگر کمپنیاں زیادہ دیر تک کھلی رہنے کا فیصلہ کرتی ہیں تواصولی طور پر ملازمین زیادہ کام کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ جو بھی زیادہ کام کرے گا اسے اضافی معاوضہ دیا جائے گا۔

ایتھنز حکومت کا کہنا ہے کہ نئے قوانین انتظامات کو آسان بنائیں گے، ملازمین کو مزید حقوق فراہم کریں گے، پروبیشن کی مدت کو چھ ماہ تک کم کریں گے اور اس طرح غیر اعلانیہ کام پر بھی روشنی ڈالی جا سکے گی۔ نہ صرف یہ بلکہ  اس طرح ہنر مند مزدوروں کی منڈی میں پائی جانے والی افرادی قوت کی کمی پوری کرنے میں بھی مدد ملے گی۔   تاہم مزدوروں کی یونینوں اور بہت سے کارکنان کو اس کے بدترین اثرات کا خوف ہے۔ کیا یہ فارمولا دوسرے ممالک کے لیے رول ماڈل بن سکتا ہے؟

یونان کا دریائے آشیرون کا ساحل
یونان کے ساخلی علاقے بھی ملک میں پائی جانے والی غربت سے متاثر ہوئے تھے۔تصویر: Pond5 Images/IMAGO

مخالف سمت میں سفر

یونان  ایک ایسا یورپی ملک ہے جسے کم اجرتوں، بے روزگاری کی بڑھی ہوئی شرح اور گھٹتی ہوئی آبادی جیسے بحرانوں کا سامنا ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ ورکنگ ویک کو طویل تر بنانے میں یونان پہلا یورپی ملک ہوگا جبکہ اس کے برعکس زیادہ تر یورپی اور یونان کے پڑوسی ممالک مخالف سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

بیلجیم، فرانس، برطانیہ، اسپین اور آئس لینڈ کے کاروباری حلقوں کی طرف سے کم کام کرنے کے مختلف ماڈلز کا تجربہ کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر یا تو 40 گھنٹے کے ورکنگ ویک کو قائم رکھنے یا کام کے یومیہ دورانیے کو آٹھ کی بجائے دس گھنٹے کرنے کے ماڈل کے زریعے  ہفتے کو پانچ کے بجائے چار روزہ کر دیا گیا۔ یا کام کے 100 فیصد بوجھ کو اس کے صرف 80 فیصد وقت میں مکمل کر تے ہوئے پوری تنخواہ وصول کر لی جائے۔

یونان میں مہاجرین کی مدد کرتے جرمن ڈینٹل ڈاکٹر

اس سال کے شروع میں جرمنی میں نیشنل ریلوے ڈوئچے بان اور ٹرین ڈرائیورز یونین نے معیاری ورک ویک کو بتدریج 38 سے کم کر کے 35 گھنٹے کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دیگر یونینوں کو اس مثال پر عمل کرنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ 

 برُے وقتوں سے بحالی

ايسا پہلی بار نہیں ہو رہا کہ  یونان کو چھ روزہ ورکنگ ویک کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ماضی میں جب یونان 2009 میں قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا تھا اور اپنی یورپی یونین کی رکنیت کھونے کے قریب تھا، تب کچھ قرض دہندگان نے یونانیوں سے مزید کام کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

قدیم یونانی علاقہ آکروپولیس
تاریخی یورپی ملک یونان اپنی سیاحت کے دم سے کسی طرح اقتصادی بحران کی پردہ پاشی کر رتا رہا ہےتصویر: Petros Giannakouris/AP/picture alliance

یورپی یونین  کے اس ملک نے اربوں یورو کے بیل آؤٹ پیکجز قبول کیے، جو اسے کفایت شعاری کے سخت اقدامات کے وعدوں کے ساتھ ملے تھے۔ پھر بھی بیل آؤٹ پروگراموں کے حصے کے طور پر ہفتے میں کام کے چھٹے دن کو کبھی بھی متعارف نہیں کرایا گیا تھا۔

مئی کے وسط میں جاری کردہ یورپی کمیشن کے اندازوں کے مطابق اب یونان اپنے ٹریک پر واپس آ گیا ہے ۔  اس کی جی ڈی پی کی شرح نمو میں رواں سال 2.2 فیصد اور آئندہ سال  2.3 فیصد کے اضافے کی توقع کی جا رہی ہے۔ جبکہ اسی مدت کے دوران یونان میں بے روزگاری 10.3 فیصد سے کم ہوکر 9.7 فیصد ہو جانے کی بھی توقع  ہے۔

پھر بھی پچھلی دہائی کے دوران بہت سے نوجوان پڑھے لکھے یونانیوں نے ملک چھوڑ دیا کیونکہ انہیں بیرون ملک بہتر مواقع دکھائی دیے۔ اُدھر 2019ء میں یونان کی آبادی 10.7 ملین تھی، اس میں بھی کمی واقع ہو کر  2029ء میں تقریباً 10.3 ملین رہ جانے کی توقع کی جا رہی ہے۔ یونان کے کچھ شعبوں جیسے زراعت، سیاحت اور تعمیرات میں پہلے سے ہی ہنر مند کارکنوں کی کمی پائی جاتی ہے۔

یورپی تنظیم برائے اقتصادی ترقی و تعاون OECD کے مطابق یونان میں پہلے بھی  طویل ترین کام کے اوقات یا  گھنٹوں والا سال دیکھا گیا ہے۔ گرچہ بعض اوقات  اس یورپی تنظیم کے اعداد و شمار  کا موازنہ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ان سے رجحان کا واضح اندازہ ہو جاتا ہے اور یہ رجحان بتاتا ہے کہ برطانیہ، امریکہ اور جرمنی کے مقابلے میں یونانی باشندے زیادہ گھنٹے کام کرتے ہیں۔

(آشوتوش پانڈے) ک م/ ش ر