1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا یورپی یونین بنگلہ دیش میں منصفانہ انتخابات کرا سکتی ہے؟

25 جولائی 2023

بنگلہ دیش میں اگلے سال جنوری تک عام انتخابات ہونے والے ہیں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابات کو دھاندلی اور بدانتظامی سے پاک ہونے کو یقینی بنانے میں یورپی یونین کا کردار کلیدی ہو گا۔

https://p.dw.com/p/4UL9S
حسینہ کی پارٹی نے 2014 اور 2018 میں گزشتہ دو عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان دونوں انتخابات میں تشدد اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے
حسینہ کی پارٹی نے 2014 اور 2018 میں گزشتہ دو عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان دونوں انتخابات میں تشدد اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھےتصویر: Partho Sarothi Das

بنگلہ دیش میں گزشتہ ہفتے ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم دو اپوزیشن کارکن ہلاک اور سینکڑوں اس وقت زخمی ہو گئے جب ہزاروں افراد وزیر اعظم شیخ حسینہ کے استعفے کا مطالبہ کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔

یہ ہلاکتیں جنوری 2024 میں متوقع قومی انتخابات سے قبل اس جنوب ایشیائی ملک میں بگڑتے ہوئے سیاسی ماحول کی عکاسی کرتی ہیں۔

حسینہ کی عوامی لیگ نے 2009 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بنگلہ دیش پر اپنا سخت کنٹرول رکھا ہوا ہے۔ اس پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، آزادی صحافت کو ختم کرنے، اختلاف رائے کو دبانے اور ناقدین، جن میں اپوزیشن بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کے کارکنان شامل ہیں، کو جیل بھیجنے کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ عوامی لیگ پارٹی ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

بی این پی اور اس کے درجنوں چھوٹے اتحادیوں نے حسینہ کے استعفی کا مطالبہ کرنے کے لیے ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی اپیل کی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ اگلا الیکشن ایک غیر جانبدار انتظامیہ کے تحت کرایا جائے، لیکن شیخ حسینہ حکومت نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔

بنگلہ دیش: ہزاروں اپوزیشن کارکنوں پر 'جعلی' مقدمات درج

بنگلہ دیش کی حکومت کو گزشتہ ہفتے ایک ایسے واقعے کے بعد سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا جب پارلیمان کے ضمنی انتخابات کے ایک امیدوار پر مبینہ حکمراں جماعت کے حامیوں نے دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک پولنگ مرکز پر حملہ کیا تھا۔

جرمنی سمیت متعدد مغربی سفارت خانوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کرکے اس حملے کی مذمت کی۔

یہ واقعہ ایک ایسے وقت پیش آیا جب یورپی یونین کا چھ رکنی الیکشن ایکسپلوریٹری مشن آئندہ انتخابات کی نگرانی کے لیے یورپی یونین کے انتخابی مبصرین بھیجنے کے امکان پر فیصلہ کرنے کے لیے ملک کا دورہ کر رہا ہے۔

یورپی یونین کی اس ٹیم نے 8 جولائی سے 22 جولائی تک اپنے دو ہفتے کے دورے کے دوران ملک کی سیاسی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے سیاسی جماعتوں، میڈیا کے نمائندوں اور سول سوسائٹی کے اراکین سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کئی درجن ملاقاتیں کیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین بنگلہ دیش میں آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین بنگلہ دیش میں آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہےتصویر: Samir Kumar Dey/DW

یورپی یونین کیا کردار ادا کر سکتی ہے؟

الینوائے اسیٹ یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر علی ریاض کا کہنا ہے کہ یورپی یونین بنگلہ دیش میں آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔

انہوں نے کہا،"یورپی یونین ان فوائد کو اجاگر کر سکتی ہے جو ایک جمہوری اور جامع بنگلہ دیش کو اقتصادی تعاون، سماجی ترقی اور یورپی یونین کی منڈیوں تک رسائی کے حوالے سے حاصل ہوں گے۔"

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "اگرچہ یورپی یونین کا زیادہ زور اقتصادی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یورپی یونین اپنے زور کو کس حد تک استعمال کرنے کے لیے تیار ہے۔"

اقوام متحدہ کا بنگلہ دیش میں انتخابات کی آزادانہ چھان بین کا مطالبہ

جنوبی ایشیا کے امور کے تجزیہ کار اور برلن کی ہمبولٹ یونیورسٹی میں لکچرر جیسمین لارش کا کہنا تھا کہ اگر آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے لیے کم سے کم شرائط موجود ہوں تو یورپی یونین مبصرین بھیج سکتی ہے۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"اگر یہ واضح ہو کہ وہاں پر تمام سیاسی جماعتوں کے لیے مقابلے کے خاطر مساوی مواقع دستیاب نہیں ہیں تو یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک دباو ڈالنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ یورپی یونین دباو ڈالنے کے لیے جو سب سے اہم حربہ استعمال کرسکتی ہے وہ ای بی اے انتظامات کو جزوی یا مکمل طورپر واپس لینے کی دھمکی ہے۔

 ای بی اے سے مراد "ایوری تھنگ بٹ آرمز" ہے۔ جس کے تحت بنگلہ دیش کویورپی یونین کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کو چھوڑ کر تمام اشیاء ڈیوٹی فری برآمد کرنے کی اجازت ہے۔

 یورپی یونین بنگلہ دیش کا بالخصوص ملبوسات کے شعبے میں،سب سے اہم تجارتی شراکت دار ہے
یورپی یونین بنگلہ دیش کا بالخصوص ملبوسات کے شعبے میں،سب سے اہم تجارتی شراکت دار ہےتصویر: DW

کیا یورپی یونین ویزا پابندیاں بھی عائد کرسکتی ہے؟

 بنگلہ دیش نے سال 2017 سے 2020 کے درمیان یورپی یونین کو سالانہ اوسطاً 16.6بلین ڈالر کی برآمدات کیں جو بنگلہ دیش کی مجموعی برآمد ات کا نصف ہیں۔ یورپی یونین بنگلہ دیش کو ہر سال لاکھوں یورو کی امداد بھی فراہم کرتا ہے۔

لارش نے کہا،"ای بی اے کے انتظامات سے دست بردار ہونا واقعی ایک طاقت ورآلہ ہوگا کیونکہ یورپی یونین بنگلہ دیش کا بالخصوص ملبوسات کے شعبے میں،سب سے اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ یورپی یونین بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے ترقیاتی تعاون کو کم کرنے کی دھمکی بھی دے سکتی ہے جو کہ کافی اہم ہو گا۔"

لارش کا کہنا تھا کہ تاہم یہ اقدامات متنازعہ بھی ہیں کیونکہ اگر یہ حکومت کو آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانے میں موثر نہیں ہیں تو عام شہریوں کو نقصان ہوسکتا ہے، جب کہ سیاسی صورت حال اس کے باوجود جوں کی توں رہے گی۔"

امریکہ نے بھی حال ہی میں کہا تھا کہ وہ ایسے بنگلہ دیشی شہریوں کو ویزا محدود کر دے گا جو انتخابات کو نقصانات پہنچاتے ہیں۔

لارش کا کہنا تھا کہ ایسی پابندیاں عائد کرنے کے لیے یورپی یونین کو مشترکہ موقف پر متفق ہونے کی ضرورت ہے لیکن ان پابندیوں پر یورپی یونین کے اندر اتفاق رائے حاصل کرنا عموماً مشکل ہوتا ہے۔

کیا بنگلہ دیش چین اور روس سے قریب تر ہو رہا ہے؟

 انہوں نے مزید کہا کہ "ابھی یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا اس طرح کی پابندیاں کارآمد ہوں گی کیونکہ یہ بنگلہ دیش کو چین کے قریب بھی دھکیل سکتی ہیں۔

وزیر اعظم شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی نے 2011 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد نگراں نظام کو ختم کر دیا
وزیر اعظم شیخ حسینہ کی عوامی لیگ پارٹی نے 2011 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد نگراں نظام کو ختم کر دیاتصویر: PID Bangladesh government

'نگراں نظام' کیا ہے؟

حسینہ کی پارٹی نے 2014  اور 2018  میں گزشتہ دو عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ ان دونوں انتخابات میں تشدد اور دھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے۔

ناقدین اور اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ انتخابات کو ایک غیر جانبدار"نگران" انتظامیہ کے تحت کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

بنگلہ دیش میں 2011 سے پہلے ایسا نظام موجود تھا اور اس کا مقصد حکمران جماعتوں کو انتخابی جوڑ توڑ اور بدانتظامی سے روکنا تھا۔

اس نظام کے تحت، جب ایک منتخب حکومت اپنی پانچ سالہ میعاد ختم کرلیتی ہے تو ایک نگراں انتظامیہ، جو سول سوسائٹی کے نمائندوں پر مشتمل ہوتی ہے، تین ماہ کے لیے ریاستی اداروں کا کنٹرول سنبھالے گی اور انتخابات کرائے گی۔

غیر جانبدار انتظامیہ نے 1996، 2001 اور2008 کے عام انتخابات کرائے اور ان انتخابات کو ملکی اور بین الاقوامی مبصرین نے آزادنہ، منصفانہ اور جامع قرار دیا تھا۔

لیکن عوامی لیگ پارٹی نے 2011 میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے بعد اس نظام کو ختم کردیا اور دلیل دی کہ یہ غیر آئینی ہے کیونکہ اس سے نمائندہ جمہوریت کے اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ انتخابات کو ایک غیر جانبدار"نگران" انتظامیہ کے تحت کرانے کا مطالبہ کیا ہے
اپوزیشن جماعتوں نے آئندہ انتخابات کو ایک غیر جانبدار"نگران" انتظامیہ کے تحت کرانے کا مطالبہ کیا ہےتصویر: Mortuza Rashed/DW

ایک اور غیر مصنفانہ انتخاب؟

علی ریاض کا کہنا ہے کہ" 2014اور 2018کے دو قومی انتخابات اور حالیہ ضمنی انتخابات سمیت دیگر بلدیاتی انتخابات نے اس یقین کو تقریباً پختہ کردیا ہے کہ ایک جانبدار حکومت کے تحت آزادانہ اور منصفانہ انتخابات نہیں کرائے جاسکتے۔"

انہوں نے کہا،"اگر آپ ملک کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو موجودہ دور میں ہونے والے انتخابات میں سے کوئی بھی آزادانہ نہیں تھا۔"

لارش کو شبہ ہے کہ ملک میں اگلے قومی انتخابات بھی آزادنہ اور منصفانہ ہوسکیں گے۔

بنگلہ دیشی اپوزیشن رہنما کی ڈی ڈبلیو سے بات چیت

انہوں نے کہا، "حکومت غیر جانبدارانہ نگراں حکومت کے تحت پولنگ کرانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں نظر آتی۔ اگر انتخابات عوامی لیگ حکومت کے ماتحت کرائے گئے تو ان میں 2018 کی طرح ہی دوبارہ دھاندلی کا امکان ہے۔"

بنگلہ دیش کا انسداد دہشت گردی کا ایک یونٹ ہی ’دہشت گردی میں ملوث‘

ج ا / ص ز (عرفات الاسلام)