1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا گیتا کے اصل والدین مل گئے؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
11 مارچ 2021

پاکستان میں گيتا ایدھی بلقیس کے پاس رہا کرتی تھیں۔ پانچ برس قبل وہ بھارت واپس آئییں اور اس کے بعد سے ہی ان کے حقیقی والدین کی تلاش جاری تھی۔ کیا گیتا کے والدین مل گئے ہیں؟

https://p.dw.com/p/3qTjI
Indien Ankunft Geeta In Neu-Delhi
تصویر: Reuters/A. Abidi

سن 2015 میں پاکستان سے واپس آنے والی 29 سالہ لڑکی گیتا کی اپنے حقیقی والدین کے گھر واپسی کے دن اب شاید بہت قریب ہیں۔ ریاست مہاراشٹر کی ایک غیر سرکاری تنظیم 'پہل' کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں سے ان کے والدین کی تلاش جاری تھی اور ایک ماں نے بڑی کد و کاوش کے بعد اپنی بیٹی کو پہچان لیا ہے۔

تلاش ایک مشکل مرحلہ

جب گيتا اپنے والدین سے جدا ہوئی تھیں تو ان کی عمر محض نو برس کی تھی اور پھر وہ پاکستان پہنچ گئیں۔ چونکہ وہ قوت سماعت اور گویائی سے بھی محروم ہیں اس لیے واپسی کے بعد ان کے اصلی ماں باپ کی تلاش ایک مشکل مرحلہ رہا ہے۔  

 ریاست مہاراشٹر کی 'پہل' تنظیم سے وابستہ ڈاکٹر آنند سیلگاؤکر کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں کے دوران مختلف ریاستوں میں گیتا کے والدین کی تلاش کے سلسلے میں درجنوں تنظیموں اور خاندانوں نے مختلف مقامات پر کوششیں کیں۔ بہت سے خاندانوں نے ان پر اپنی بیٹی ہونے کا دعوی کیا تاہم اس میں کامیابی نہیں ملی تھی۔

Indien Ankunft Geeta In Neu-Delhi
تصویر: Picture alliance/AP Photo/S. Adil

والدہ کا رابطہ

گزشتہ برس اسی سلسلے میں گیتا کو پہل تنظیم کے حوالے کیا گيا تھا جہاں ایسے گونگے بہرے بچوں کی تریبت کی جاتی ہے۔ اس دوران ان کے والدین کی تلاش کرنے کی مہم بھی جاری تھی اور بالآخر ضلع پربھانی کے ایک گاؤں جنتور کی رہنے والی 70 سالہ مینا واگھمارے نے اپنی بیٹی کی تلاش میں پہل تنظیم سے رابطہ کیا اور بتایا کہ کیسے برسوں پہلے ان کی ایک بیٹی گم ہو گئی تھی۔

نشانیاں صحیح ثابت ہوئیں

ڈاکٹر آنند سیلگاؤکر کا کہنا تھا، "مینا نے ہمیں بتایا کہ ان کی بیٹی کے پیٹ پر جلنے کا ایک نشان ہے اور ہم نے جب اسے چیک کیا تو بالکل درست پایا۔" وہ بتاتے ہیں کہ ماں نے بیٹی کا اصل نام رادھا (گیتا) رکھا تھا۔اپنی بیٹی گیتا کو دیکھتے ہی مینا کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگنے،’’چونکہ گیتا بول نہیں سکتی تھیں اس لیے دونوں نے اشاروں میں باتیں کیں۔‘‘

 گيتا کے والد اور مینا کے پہلے شوہر سدھاکر واگھ مارے کا کچھ برس پہلے ہی انتقال ہو گيا تھا اور اب وہ اپنے دوسرے شوہر کے ساتھ اورنگ آباد کے پاس رہتی ہیں۔

Pakistan Geeta nach Gerichtstermin in Karachi
تصویر: Reuters/A. Soomro

پاکستان کیسے پہنچیں

آنند سیلگاؤکر کا کہنا ہے کہ غالب امکان اس بات کا ہے کہ گیتا پربھانی ریلوے اسٹیشن سے سچکھنڈ ایکسپریس ریل میں سوار ہو کر امرتسر پہنچیں اور پھر وہاں سے وہ دہلی لاہور کے درمیان چلنے والی ریل گاڑی سمجھوتہ ایکسپریس پر سوار ہوئیں اور اس طرح وہ پاکستان پہنچ تھیں۔ 

فی الوقت گيتا 'پہل' نامی تنظیم میں ہی رہتی ہیں جہاں ان کی اشاروں میں بات چيت کرنے کی تربیت جاری ہے۔ گيتا کی والدہ مینا اور ان کی ایک بڑی شادی شدہ بہن ان سے ملاقات کے لیے آتی رہتی ہیں۔ 

ڈاکٹر آنند کا کہنا ہے،’’ اب یہ حکومت پر منحصر ہے کہ وہ ماں اور بیٹی کا ڈی این اے ٹیسٹ کب کرواتی تاہم جب تک یہ عمل مکمل نہیں ہو جاتا گيتا کی پہل سینٹر میں تربیت جاری رہے گی۔‘‘

پاکستان کے خلاف بھارتی پروپیگنڈا آپریشن، پاکستان کا ردعمل

پاکستان میں گيتا کا قیام

پاکستانی میڈيا میں بھی گيتا کے  حقیقی ماں باپ سے ملنے کے بارے میں تفصیل سے خبریں شائع ہوئی ہیں۔ پاکستان کے موقر اخبار ڈان نے لکھا ہے کہ ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ کی سربراہ بلقیس ایدھی نے اس حوالے سے بتایا کہ بالآخر بھارتی لڑکی گیتا کی اپنی حقیقی والدہ سے ملاقات ہو گئی ہے۔

ڈان کے مطابق بلقیس ایدھی نے کہا، "وہ اکثر مجھ سے رابطے میں رہتی تھیں اور اس ہفتے مجھے انہوں نے اپنی حقیقی ماں سے ملنے کے بارے میں آگاہ بھی کیا تھا۔"

بلقیس ایدھی کے مطابق انہیں گیتا کراچی کے ایک ریلوے اسٹیشن پر اس وقت بے یار و مددگار ملی تھیں جب ان کی عمر  تقریبا گیارہ یا بارہ برس کی تھی۔ پھر بلقیس نے انہیں اپنے سینٹر میں پال پوس کر بڑا کیا تھا۔  

بھارت کی سابق وزیر خارجہ سشما سوارج نے انہیں پاکستان سے بھارت لانے کے لیے سفارتی کوششیں کی تھیں جس کے بعد 26 اکتوبر 2015 میں انہیں بھارت واپس لایا گیا تھا اور قوت سماعت و گویائی سے محروم افراد کے لیے اندور کی ایک معروف تنظیم کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں